رواں برس 3968 پاکستانی انویسٹرز نے باقاعدہ اپنی کمپنیاں دوبئی میں رجٹسرڈ کروالی ہیں۔سات سمندر پار روانگی اور کاروبار کی وجہ دوبئی حکومت کی تاجر دوست پالیسیاں اور سازگار کاروباری ماحول ہے۔اطلاعات یہ ہیں کہ پاکستان اور بھارت سے بزنس کمیونٹی تیزی سے اپنا کاروبار دوبئی منتقل کررہی ہیں یا کاروبار کی وسعت کیلئے دوبئی ان کی پہلی ترجیح ہے۔ بھارت میں سخت مالیاتی پالیسیاں اور پاکستان میں مسلسل دگردوں معاشی حالات سرمایہ کاروں کی سوچ بدلنے کی وجوہ بن رہی ہیں۔دوبئی سرکار کے مضبوط معاشی وسیاسی نظام' مثالی انفراسٹریکچر اور ٹیکس چھوٹ پالیسی نے متحدہ عرب امارات کو سرمایہ کاروں کے لیے ''جنت'' بنا دیا۔ کبھی سرمایہ کاروں کا رخ بنگلہ دیش کی طرف تھا، حسینہ واجد حکومت کی نرم معاشی پالیسی کے سبب صنعت و زراعت نے جس تیزی سے ترقی کی اس کی مثال جنوبی ایشیائی ممالک میں خال خال دیکھی جاتی ہے۔ وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے جس طرح سرمایہ کاروں کو ٹیکسوں میں رعایت دی اس کا نتیجہ پورے بنگلہ دیش میں صنعتوں کے جال کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ تو انتہا پسند سیاسی پالیسیاں ' حذب اختلاف کو کچلنے اور بھارت کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دینے سے وزیراعظم نے اپنا بیڑہ غرق کرلیا تھا جس کا نتیجہ 5 اگست 2024ء کو نکلا اس روز انہیں بنگلہ دیش سے فرار ہونا پڑا، تجزیہ نگار کہتے ہیں اگر وزیراعظم شیخ حسینہ واجد مستعفی نہ ہوتیں اور ڈھاکہ میں رہنے پر اصرار کرتیں تو 1974 کے اس خونیں کھیل کا ری پل ہوسکتا تھا جو بنگالی عوام نے اپنے ''محبوب قائد'' شیخ مجیب الرحمان کے ساتھ کھیلاتھا!!
وطن عزیز میں ایک کروڑ گریجویٹ بیروزگار ہیں، پانچ کروڑ نوجوان روزگار کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔بجلی کے بھاری بلز ناقابل برداشت ہوگئے، بجلی بلوں نے خودکشیاں بڑھا دی ہیں۔ صنعت کے لیے بجلی اور گیس اس قدر مہنگی ہوگئی کہ سرمایہ کار انڈسٹریز بند کرنے کو عافیت سمجھ رہے ہیں 18 اگست کو فیصل آباد میں 1958 سے قائم ستارہ ٹکسیٹائل انڈسٹری کی بندش نے دل ھلا دیا۔ کبھی اس انڈسٹری سے پانچ ہزار کارکن منسلک تھے اور آج یہ حال ہے کہ وھاب گروپ نے اخراجات اور آمدن میں بڑھتے فاصلے پر ہاتھ کھڑے کردئیے۔ پاکستان کے مانچسٹر (فیصل آباد ) گوجرانوالہ اور سیالکوٹ میں جس تیزی سے صنعتیں بند ہورہی ہیں اس پر سوائے ماتم اور افسوس کرنے کے ہم کیا کرسکتے ہیں ؟آج نئی خبر کا ''ظہور'' ہوا کہ گیس بلوں میں فیول پرائس ایڈجسمنٹ پٹرولیم طرز پر ہوا کریگی جتنی زیادہ گیس کا استعمال اتنا زیادہ بل، سرچارج وہ بھی ٹیکسوں کے ساتھ!! یہ درست ہے کہ مہنگائی ' مہنگی بجلی او ربیروزگاری نے وطن عزیز کو اطراف سے گھیرا ہوا ہے۔ ہر گھر اور ہر خاندان میں مایوسی نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ کراچی' سیالکوٹ' ناروال ،شیخوپورہ ،ساہیوال' کامونکی، لاہور اور فیصل آباد میں خودکشی اور قتل ہونے والوں کے پس پردہ بجلی کے بھاری بلز بتائے گئے گزشتہ 29 دن میں 11 انسان بجلی کے بھاری بلوں کی نذر ہوگئے۔ گوجرانوالہ میں بیمار اور بوڑھی خاتون نے 12 ہزار کا بل آنے پر گھر کے قریب نالہ میں گر کر اپنی زندگی ختم کرلی۔ لواحقین نے بتایا کہ بوڑھی زندگی عرصے سے آپریشن کے لیے رقم اکٹھا کررہی تھی، بھاری بل نے اسے زندگی اور اس کے بوجھ سے آزاد کر دیا۔ شہرہ آفاق شہر لاہور میں بل جمع نہ کرانے کی پاداش میں بڑے بھائی نے چھوٹے بھائی کی شہہ رگ کاٹ دی جس سے وہ تڑپ تڑپ کر جاں سے گزر گیا۔ ہفتہ عشرہ کے یہ غیر معمولی واقعات اچھی طرز حکمرانی کے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہیں۔برطانیہ میں رہائش پر ہمارے دوست پروفیسر نپولین گومز کا کہنا تھا کہ پاکستان میں حکومت کا کام بجلی'گیس اور پیٹرول کی قیمتں بڑھانے اور نئے ٹیکس عائد کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ آپ بجلی کا بل دیکھیں اگر کسی صارف کا 28,500 کا بل ہے تو استعمال شدہ بجلی کی قیمت 14000 درج ہے باقی 14500 جبرا ٹیکس ہیں جس کا صارف کو پتہ ہی نہیں۔ ایکسائز ڈیوٹی، جنرل سیلز ٹیکس ،نیلم توسیع پراجیکٹ سرچارچ، ٹی وی فیس' ایکسٹرا ٹیکس ، متفقرق ٹیکس کے ساتھ بل کی کل قیمت 28,500۔ مقررہ تاریخ تک عدم ادائیگی کی صورت میں 750 روپے کا جرمانہ …!!لوگ پوچھتے ہیں کہ تنخواہ دار طبقے کو سیلری مہینے کی ابتدائی تاریخوں میں ملتی ہے جب کہ بل پر آخری تاریخ 29-28 درج ہوا کرتی ہے شہری یہ بھی کہتے ہیں کہ تنخواہوں کے برابر بل کی ادائیگی قرض لے کر کی جارہی ہے۔ کیا ایسی حالات میں ہم شہریوں کو اذیت کے گڑھے سے نکال سکیں گے؟آئی پی پیز نے بجلی مہنگی کرانے کی درخواست باقاعدہ نیپرا میں جمع کرا دی ہے کمپنیوں نے مینٹننس اور ضروری مرمت کے جواز پر 47 ارب مانگے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وفاقی حکومت یہ اضافی رقم بجلی مہنگی کرکے پورا کرے گی'' خدا خیر کرے'' لگتا ہے مستقبل میں پاکستان میں بجلی کا استعمال نصف آبادی ( یعنی15 کروڑ افراد )کے لیے مشکل ہو جائے گا۔ تین روز قبل سابق وزیر زراعت و وزیر داخلہ ڈاکٹر گوہر اعجاز نے بتایا کہ جولائی میں بجلی کی جتنی بھی پیداوار ہوئی اس کی اوسط پیداواری لاگت صرف 9 روپے فی یونٹ تھی۔تو پھرقوم سے 80 روپے فی یونٹ کس کھاتے میں وصول کیے جا رہے ہیں؟یعنی 71 روپے فی یونٹ حکومت اور آئی پیز والے اس بجلی کی قیمت بھی ہم سے وصول کر رہے ہیں جو ؛ بجلی بنی ہی نہیں؛ یعنی کپیسٹی پیمنٹ کی مد میں۔ گوہر اعجاز صاحب کو بھی اپنی وزارت ختم ہونے پر یہ سب کچھ اب یاد آیا، کاش یہ اس وقت مستعفی ہوتے اور قوم کے پاس آ جاتے تو یہ ہیرو کہلاتے۔ خیر یہ بھی بڑی بات ہے کہ اب بھی ان کو خیال آ گیا ورنہ تو اب بھی لوگوں کو اپنے اعمال پر شرمندگی نہیں!!اتنا بڑا ظلم، اتنی بے حسی غریب صارفین کے ساتھوہ بھی صرف اپنے مفاد کے لئے…!!بڑے بڑے ادارے جو اتنے طاقتور ہیں کہ جب چاہیں لوگوں کی سانسیں بھی روک لیں مگر ان مافیاز پر نہ جانے کیوں ہاتھ نہیں ڈالتے جنہوں نے اتنے ظالمانہ معاہدے کئے کہ صارفین کا جینا حرام ہو گیا۔ جن ہاتھوں نے یک طرفہ اور عوام دشمن معاہدے کئے انہیں فورا کٹہرے میں کھڑا کریں اس سے پہلے کہ قوم سب کو عوامی کٹہرے میں کھڑا کر دیں پھر کچھ نہیں بچے گا۔،بھوکا آدمی ظلم سہ سہ کر ظالم بن جاتا ہے!!
خدا کا خوف کریں اگر بجلی' گیس اور پٹرول پر ٹیکس عائد کرنے کا سلسلہ یوں ہی اسی رفتار سے جاری رہا تو پانی سر سے اوپر چلا جائے گا ابھی وقت ہے حالات پر ٹھنڈے دل سے غور کریں لوگوں کو بند گلی میں دھکیلنے سے روکیں مباداکہ بنگلہ دیش کے عوامی انقلاب کی طرح یہاں بھی نرم انقلاب نہ آجائے۔
[2:40 PM, 8/23/2024] Dr.Saleem Akhtar: