اُردو ہے جس کا نام

الحمد للہ ہم مسلمان ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی واحدنیت اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاتم النبین ہونے پر مکمل ایمان رکھتے ہیں۔ ہمارے اسلاف نے بڑی قربانیوں سے وطن عزیز پاکستان حاصل کیا ۔ قیام پاکستان کے دوران جن مصائب و مشکلات سے ہمارے اسلاف کو دو چار ہونا پڑا۔ ان کے تصور سے ہی دل ودماغ میں ہلچل پیدا ہو جاتی ہے۔ آخر انہوں نے اس ملک کو کیوں حاصل کیا۔ صرف اس لیے کہ ہم چونکہ مسلمان ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ اور حضور نبی اکرمؐ کے بتائے ہوئے راستوں پر زندگی گزارنے کے پابند ہیں ہم مادر پدر آزاد نہیں ہیں۔ ہمارے لیے کچھ حدود مقرر کر دی گئی ہیں۔ ان حدود سے تجاوز کرنا ’’ روشن خیالی‘‘ نہیں بلکہ خالق کائنات کے قوانین سے متصادم ہونا ہے ہمارے دین میں آخرت نام کی بھی کوئی چیز ہے۔ زندگی میں کئے ہوئے ہر عمل کا ہم نے وہاں جواب دینا ہے۔ موت اور آخرت پر ہمارا اٹل اور پختہ یقین اور ایمان ہے ۔ لہٰذا ہماری دنیاوی اور اُخروی بھلائی خالق کائنات کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلنے میں ہی ہے۔ ہمارے اسلاف کے پیش نظر یہ ہی وہ سنہری قوانین تھے جن کی بنا پر انہوں نے عظیم اور بے مثال قربانیاں دے کر وطن عزیز پاکستان کو حاصل کیا کہ جہان ہم آزادانہ طور پر بلا شرکت غیر ے اللہ تعالیٰ اور حضور نبی اکرم ؐ کے احکامات کی پیروی کرتے ہوئے زندگی بسر کر سکیں۔ انہی راہنما اصولوں کی تقلید کو اسلوبِ زیست کا نام دیا جاتا ہے۔ کسی قوم کی مجموعی زندگی میں ثقافت کو بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ قوم کے منتشر افراد کو ایک مربوط اجتماعی نظام میں اکٹھا کرنا اور قوم کو ایک جہت عطا کرنا یہ ثقافت ہی کا کام ہے۔ ثقافت کا تعلق ان افکار و اقدار سے ہے جو مذہبی اور اخلاقی ضابطوں میں‘ ادب میں‘ سائنس اور فلسفہ میں اور آرٹ اور موسیقی میں ملتے ہیں۔ زبان بھی ثقافت کا ہی ایک اہم ترین جزو ہے کسی کلچر کی تشکیل اور اس کی بقا میں اس ثقافتی گروہ کی زبان بھی اہم رول ادا کرتی ہے چنانچہ ممتاز حسین لکھتے ہیں : ’’کوئی قوم مضبوط اس وقت بنتی ہے جبکہ اسے بھرپور طو ر سے معلوم ہو کہ اس کا کلچر کیا ہے اور وہ اپنے اس کلچر کا اظہار اپنی ہی زبان میں کرتی ہو۔‘‘
ہر زبان اپنا ایک مخصوص کلچر رکھتی ہے۔ یعنی زبان اپنے بولنے والوں کے ایک خاص کلچر کی نمائندگی کرتی ہے۔ خوش قسمتی سے ہمیں شروع ہی میں ایک ایسی زبان (اردو) میسر آئی جو کہ ہمارے مخصوص اسلامی کلچر کی بھرپور نمائندہ ہے۔ اس زبان نے تحریک پاکستان کے دوران بھی جو اہم کردار ادا کیا وہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس زبان نے اپنوں اور بیگانوں کی بلا تفریق رنگ و نسل دل کھول کر خدمت کی۔ بوقت ضرورت سب نے ا س کے سائے میں پناہ لی۔ اردو زبان نے سب کو کشادہ دلی کے ساتھ اپنے سینے سے لگایا اور کبھی بھی تنگ دامن نہ نکلی۔ مختصر یہ ہے کہ اردو زبان نے سب کے ساتھ وفا کی مگر افسوس ’’سب ‘‘ اس کے لیے بے وفا ثابت ہوئے۔جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ عربی قبل از اسلام بھی رائج تھی ۔ مگر اردو عہد اسلام میں پھلی پھولی۔ اس لیے اسے اسلامی ثقافت کی زبان کہنا ناروا نہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ اردو زبان کو یہ فخر حاصل ہے کہ جتنا اسلامی لٹریچر اس میں سمایا ہوا ہے کسی اورزبان میں نہیں۔ اردو ہی ہمارے مخصوص اسلامی کلچر کی حامل ہے۔ خوش قسمتی سے ہماری اسلامی روایات ثقافت اور آداب معاشرت کی نہ صرف وارث ہے بلکہ ہماری قومی زبان ہو نے کی بھی دعویدار ہے۔ قومی زبان کا لقب اس زبان کو زیب دیتا ہے جس کی وساطت سے تعلیم و تدریس کا نظام قائم ہو اور جو ایک ملک کے نظم ونسق کے اداروں اور عدالتوں کی دفتری زبان ہو۔
یہ بات بھی بڑی واضح ہے کہ اردو زبان میں اتنی زیادہ قوت جذب اور وسعت نظر ہے کہ حسب ضرورت اس میں ہر زبان کی گنجائش نکل سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو قومی زبان سے کسی بھی علاقائی زبان کی رقابت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہر علاقائی زبان کا اپنے اپنے حصہ ملک میں دائرہ عمل واضح طور پر متعین ہے اور یہ سب علاقائی زبانیں ایک ہی ثقافتی نصب العین اور ایک ہی دستور حیات کی ترجمان ہیں اور ہماری قومی زبان کے لیے بڑی قوت کا سرمایہ ہیں۔
بدقسمتی سے وطن عزیز پاکستان میں ایک مخصوص اور محدود مگر موثر گروہ ایک غیر ملکی زبان کے سحر میں گرفتار ہے اور اس کی ترویج میں مسلسل کوشاں ہے۔ اصل میں حقیقت یہ ہے کہ مغربی تہذیب کی اندھا دھند تقلید نے ہمیں دین سے بہت دور کر دیا ہے۔ آج ہم ’’ماڈر نزم‘‘ کی آڑ میں بے حیائی‘ فحاشی‘ عریانی کو جائز قرار دے رہے ہیں۔ اپنی قومی زبان اردو کے برعکس انگریزی تہذیب اور زبان و کلچر کو فروغ دے رہے ہیں۔ نفسا نفسی ‘ بے حسی اور خود غرضی کے اس دور میں نہ کسی کو مذہب کی فکر ہے اور نہ ثقافت عزیز ہے۔ اصل میں دلوں سے خدا کاخوف اور اس کی مخلوق سے محبت کے جذبات محو ہو چکے ہیں اور یہ ہی وہ دو اوصاف ہیں جن پر دین کی بنیاد ہے اور جو خود ایمان سے پیدا ہوتے ہیں۔ افسوس کہ ہم ’’دین‘‘ کی بجائے انگریزی تہذیب و زبان اور کلچر کو اپنانا باعث فخر گردانتے ہیں چونکہ ہمیں اس کلچر میں بے راہ روی اور عیاشیوں کے سامان وافر مقدار میں میسر ہیں۔(جاری)