مسلمانوں نے جب ہندوستان میں قدم رکھا تو ہندو قوم تہذیب سے ناآشنا تھی۔ ”پاپولر ہندوازم“ کتاب میں درج ہے کہ ”معبودوں کی تعداد 33کروڑ تھی“۔ لباس نہایت مختصر تھا۔ کھانے میں ورائٹی نہ ہونے کے برابر تھی کیونکہ کھانے پینے کے معاملات میں شدید پابندیاں تھیں۔ توہم پرست ہونے کے باعث مصافحہ نہیں کرتے تھے۔ فنِ تعمیر سے بے خبر تھے۔ مگر مسلم طرزِ معاشرت سے ہنود کے خیروشر، اچھائی و برائی، مفیدوغیر مفید کے پیمانے ہی بدل گئے۔ مغل بادشاہوں کے سنہری دور نے فنونِ لطیفہ، فنِ خطاطی، فنِ تعمیر کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا۔ مسلم کمیونٹی نے اتنے متاثر کن اثرات مرتب کیے کہ ہندووں کے گھروں سے بھی حلوہ پوری، متنجن، پلاو مٹھائیوں، حلووں کی مہک آنے لگی۔ ہوادار، کشادہ نقش و نگار سے مزین گھروں کی تعمیر میں رجحان بڑھنے لگا۔ لباس میں فیشن اور جدت آنے لگی۔
1947ءمیں پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو کم عرصے میں اس نے اپنی اخلاقیات، طرزِ معاشرت تہذیب و ثقافت کے ذریعے د±نیا بھر میں اپنی دھاک بٹھا دی۔ مگر اب حالات یکسر بدلتے جارہے ہیں۔ ہماری تہذیب بڑی تیزی سے مغربی تہذیب میں تحلیل ہو رہی ہے۔ بالشت بہ بالشت مغرب کو نقل کرنے کو ہم اپنا فخروغرور سمجھتے ہیں۔ ہمارے لباس، بولنے کا لب و لہجہ، کھانے کی انواع تک میں تبدیلی رونما ہوچکی ہے۔ ماناکہ ہم جدید تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو نہ ڈھالیں گے تو دنیا سے پیچھے رہ جائیں گے۔
بلاشبہ ایسا ضرور کیجئے مگر اپنی تہذیب کو پس پشت مت ڈالئیے۔ وقت کی پکار ہے کہ ہم اپنی تہذیب و ثقافت کی باقیات کو آنے والی نئی نسل کے لیے بطور ورثہ سنبھال کر رکھیں ورنہ ہماری نسل نو کبھی بھی اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگی کہ علم و ادب، اعلیٰ اخلاقیات ہمارا خاصہ ہیں۔ وہ تو یہی کہے گی کہ ہماری تہذیب یورپ سے ماخوذ شدہ ہے۔ حالانکہ حقیقت اسکے برعکس ہے۔ دراصل مغربی تہذیب نے ہماری تہذیب سرقہ کی ہوئی ہے۔ اس بات کی تصدیق ایک ہسپانوی A-CASTRO نے کی ہے کہ شائستگی کے سبھی طور طریقے بلاشبہ اسلامی ثقافت سے اخذ کیے گئے ہیں۔ ظاہر ہے جب یورپ جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا ادھر مسلمانوں نے اندلس، سسلی، سپین میں علم و تہذیب کے وہ چراغ روشن کر دیے جن کی روشنی نے اندھیروں میں بھٹکنے والے اہلِ مغرب کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اہلِ مغرب کا طرزِ معاشرت بہت منظم ہوچکا ہے۔ گھروں کے باہر صفائی و ستھرائی کارواج ہے۔ لوگ دوسروں کی ریکی و تجسس سے گریز کرتے ہیں۔ فوڈ سیفٹی کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ بوڑھوں، بچوں، معذور افراد کے لیے روزینے مقرر ہیں۔ اکثروبیشتر محکمہ جات پوری محنت اور امانتداری سے فریضہ کی سرانجام دہی میں مصروف ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ صد افسوس اگر ہم نے اہلِ مغرب کی نقالی کی بھی تو انکے منظم ہونے کی نہیں کی۔ جو چیز انفرادی تسکین کا باعث تھی اس کو اپنا لیا۔ لمحہءگریہ ہے کہ 50%لوگوں نے اخلاقی گراوٹ کو اپنا شعار بنالیا ہے۔ دورِ حاضر میں اخلاقیات سکڑ کر صرف اپنی ذاتی حد تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ معاشرے میں خود غرضی، کرپشن، دھوکہ دہی، منافقت، افراتفری، جھوٹ، مفاد پرستی پسندیدہ شیوہ بن چکی ہے۔ شاید سنجیدہ قوم سے ہم بدتہذیبی کی طرف اتر آئے ہیں۔ اسکا مظاہرہ تو تب ہی ہوا جب گورنر ہاوس کو عوامی سطح کے لیے کھولا گیا تو جواباً عوام کا سیلابی ریلہ اسے دیکھنے کے لیے ا±مڈ آیا۔
سرکاری عمارت کو عوام نے کھانے پینے کی اشیاءاور ریپرز سے بھر دیا۔ درختوں پر چڑھائی شروع کر دی۔ پودوں، پھولوں کو نقصان پہنچایا۔ اس کے برعکس کچھ مہینے قبل ہانگ کانگ میں عوامی احتجاج کے دوران ہزاروں افراد نے ایمبولینس کے لیے راہ ہموار کر کے اعلیٰ اخلاقیات کا ثبوت دیا اور احتجاجی دھرنے کے بعد وہاں صفائی بھی کی۔ اب قارئین! آپ اندازہ لگائیں کہ ہم کس روش پر چل رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بعد پاکستان میں اب ٹورازم کا نیا باب کھلنے جا رہا ہے۔ مجھے خدشہ اس بات کا ہے کہ عوام میں سے چند لوگ کہیں ان علاقوں کی قدرتی خوبصورتی کا توازن نہ بگاڑ دیں۔ چلیں یہ بات تو ایک سائیڈ پر رہی ہم میں سے چند اشخاص ٹریفک اصولوں کی پابندی پر عملدرآمد کرنا ہی اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ جمیز بانڈ کی طرح ایکشن دکھا کر اشاروں کی خلاف ورزی بڑی دیدہ دلیری سے کرتے ہیں۔ مضحکہ خیز بات تو یہ ہے کہ لوگوں کا تجسس بڑھ گیا ہے۔ علمی وادبی لحاظ سے نہیں بلکہ دلچسپ واقعات کی طرف۔
یہ بات مشاہدے میں ہے کہ کسی بھی جگہ کوئی معمولی واقعہ بھی ہو جائے تو خوامخواہ 20سے 25انسان اپنی منزل اور راستہ چھوڑ کر وہاں پہنچ کر نظارے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ مدد کرنے کی بجائے گھنٹہ گھنٹہ سیلفیاں بناتے رہیں گے۔ امدادی کارروائیوں میں رکاوٹ کھڑی کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے پاس کافی فالتو ٹائم تھا یا انہیں وقت کی قدر نہیں رہی۔ ایک اور بڑا معاشرتی المیہ دور±خی پالیسی کا ہے۔ ہمارے ہاں بغیر خوشامد، سفارش اور رشوت کے کوئی کام بآسانی نہیں ہو سکتا۔۔ بیوروکریٹس کی جی حضوری ٹاپ ٹرینڈ بن چکا ہے۔ حق بات کہتے ہوئے ہم گھبراتے ہیں۔ اگر اعلیٰ عہدے داران سرکاری املاک، سرکاری بجلی، سرکاری پٹرول اور دیگر محکمہ جاتی اشیاءکو ذاتی ملکیت سمجھ کر اسکا بے جا تصرف کرتے ہیں تو ہم ان کو برملا ٹوک نہیں سکتے۔ ہم میں حق گوئی کی جرات کھو گئی ہے۔