اس میں کوئی شک نہیں کہ ’’دوقومی نظریے‘‘ کے سیاسی خدوخال واضح طور پر 23 مارچ 1940ء کی قراردادِ لاہور سے ابھرے تھے لیکن تاریخی‘ تہذیبی اور معاشرتی لحاظ سے اس نظریے کی بنیاد اس روز ہی پڑ گئی تھی جب پہلے مسلمان نے دیوی دیوتائوں کی پوجا کرنیوالے لوگوں کے ملک ہندوستان پر پہلا قدم رکھا تھا۔ یہ مسلمان اپنے ساتھ خدا کی وحدانیت کا تصور لیکر آیا تھا‘ اور بنی نوعِ انسان کی مساوات اور انسانی حقوق کی یکسانیت میں ایمان رکھتا تھا اور اس نبی آخرالزمانؐ کی شریعت پر عمل پیرا تھا جس نے دنیا کے سب سے بڑے بت کدے میں خدا کا پہلا گھر بنایا تھا اور توحید کی آواز بلند کی تھی۔ اس وقت ہندوستان کا معاشرہ ذات پات میں منقسم تھا‘ بتوں کی پوجا ان کا دھرم تھا لیکن شودر اس معاشرے میں سب سے نچلے درجے کے انسان تھے جنہیں مندروں میں داخل ہونے اور بتوں کی پرارتھنا کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ مور ایام کیساتھ ہندوستان کے مغرب سے مسلمان آتے رہے‘ ان میں محمد بن قاسم جیسے فاتح بھی تھے اور حضرت داتا گنجؒ بخش اور خواجہ معین الدین چشتیؒ جیسے صوفیائے کرام بھی جنہوں نے اس سرزمین پر وحدتِ خداوندی کا پیغام پھیلایا اور بندے اور خدا کے درمیان سے وہ قدغن ہٹا دی جو برہمن پروہتوں نے اپنی سماجی اجارہ داری کیلئے قائم کر رکھی تھی۔ قائداعظم محمد علی جناح نے 8 مارچ 1944ء مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طلباء سے خطاب کیا تو ماضی کی اس تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا:
’’پاکستان اسی دن وجود میں آگیا تھا جب ہندوستان میں پہلے ہندو نے اسلام قبول کیا تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب یہاں مسلمانوں کی حکومت قائم نہیں ہوئی تھی۔ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمۂ توحید‘ ہے۔ نہ وطن ہے اور نہ نسل۔ ہندوستان کا پہلا فرد جب مسلمان ہوا تو وہ اپنی پہلی قوم کا فرد نہیں رہا۔ بلکہ وہ ایک جداگانہ قوم کا فرد ہو گیا۔ ہندوستان میں ایک نئی قوم وجود میں آ گئی‘‘۔ (انسائیکلوپیڈیا پاکستانیکا۔ ص 491)… چند ماہ کے بعد قائداعظمؒ نے ہندوئوں کے لیڈر موہن داس کرم چند گاندھی کو ایک خط لکھا تو ہندوستان میں مسلمانوں کی علیحدہ قومیت کی وضاحت ان الفاظ میں کی:
’’ہم مسلمان اپنی تابندہ تہذیب اور تمدن کے لحاظ سے ایک قوم ہیں۔ زبان اور ادب‘ فنونِ لطیفہ‘ فنِ تعمیرات‘ نام اور نام رکھنے کا طریقہ‘ اقدار اور تناسب کا شعور‘ قانونی اور اخلاقی ضابطے‘ رسوم اور جنتری‘ تاریخ اور روایات‘ رجحانات اور امنگیں… ہر ایک لحاظ سے ہمارا اپنا انفرادی زاویۂ نگاہ اور فلسفۂ حیات ہے۔ بین الاقوامی قانون کی ہر تعریف کے مطابق ہم ایک قوم ہیں‘‘۔ (خط بنام مسٹر گاندھی۔ 17 ستمبر 1944)
اس قوم کی تاریخ اس دن سے ہندوستان میں شروع ہوئی ہے جب پہلا مسلمان اس ملک میں آیا تھا۔ اور اس روز سے ہی نہ صرف دوقومی نظریے کے خطوط واضح ہونے لگے بلکہ لاشعوری طور پر اس خیال کو بھی تقویت ملنے لگی یہ دو قومیں اکٹھی نہیں رہ سکتیں۔ کیونکہ دونوں قوموں کی تہذیبی روایات اور دینی عقائد مختلف تھے۔ ابو ریحان البیرونی نے اپنی ’’کتاب الہند‘‘ میں 1020ء کے لگ بھگ اپنے مشاہدات کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا:
’’مسلمانوں کو یہ (مقامی باشندے) ملیچھ (ناپاک) کہتے ہیں۔ اس وجہ سے یہ مسلمانوں سے ملنا جلنا‘ شادی بیاہ کرنا‘ قریب جانا‘ مل کر بیٹھنا اور ان کے ساتھ کھانا جائز نہیں سمجھتے۔ اگر کسی مجبوری کے تحت ہندوئوں کو مسلمانوں کے ساتھ ہاتھ ملانا پڑ جائے تو اپنے ہاتھ پر رومال لپیٹ کر ہاتھ ملاتے ہیں۔ صدیوں سے مسلمانوں کیخلاف ہندوئوں کے دل میں جو نفرت کا لاواپک رہا تھا۔ یہ سب کچھ اس کا نتیجہ تھا کہ ہندو مسلمانوں کو تکلیف پہنچاتے۔ ذلیل و خوار کرتے۔ نفرت سے دور رکھتے اور قتل و غارت سے نیست و نابود کرنا زندگی کا جزو سمجھتے‘‘۔ (البیرونی۔ 1020ئ)
ہندو مسلم اختلافات کی یہ خلیج مسلمان حکمرانوں کے دور میں بھی قائم رہی‘ اس دور کی معرکہ آرائیوں میں ہندوئوں کی جنگجو قوم مرہٹوں کی مذہبی منافرت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ سلطان شہاب الدین غوری نے ان اختلافات کا جو حل نکالا وہ ان دوقوموں کی علاقائی علیحدگی پر منتج ہوتا ہے۔ سلطان شہاب الدین غوری نے ہندوئوں کے راجہ پرتھوی راج کو تجویز دی کہ :
’’…ہندوئوں اور مسلمانوں کی باہمی معرکہ آرائی کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کا واحد حل یہی ہے کہ دریائے جمنا کو حدِ فاصل بنا کر برصغیر کو اس طرح تقسیم کر دیا جائے کہ مشرقی ہندوستان پر ہندوئوں کا اور مغربی ہندوستان پر مسلمانوں کا تصرف ہوتا کہ دونوں قومیں امن و امان سے زندگی گزار سکیں۔ یعنی ہندوستان کو دو حصوں میں تقسیم کر لیا جائے۔ پنجاب‘ سندھ‘ سرحد‘ بلوچستان اور کشمیر کا علاقہ مسلمانوں کو دے دیا جائے اور باقی ماندہ ہندوستان پر ہندو قابض رہیں‘‘۔ (بحوالہ سرفراز حسین مرزا‘ پروفیسر احمد سعید)
’’ہندوستان جیسے وسیع و عریض ملک میں جہاں مختلف قومیں اور زبانیں ہیں‘ ایک متحدہ اور مستحکم سلطنت قائم نہیں کی جا سکتی۔ ایک نہ ایک دن پانچ چھ بڑے صوبے بالآخر مکمل اختیارات کے ساتھ آزاد مملکت بن جائینگے‘‘۔ سرسید احمد خان نے 1883ء میں کہا ’’ہندوستان ایک ملک نہیں‘ یہ براعظم ہے اور یہاں مختلف نسلوں اور روایات کے لوگ آباد ہیں‘‘ اور 1867ء میں واضح کر دیا کہ ہندوستان میں دو بڑی قومیں آباد ہیں‘ ہندو اور مسلمان‘‘… دوقومی نظریہ مذہبی اور تہذیبی بنیادوں پر استوار ہوتے ہوتے بیسویں صدی میں پہنچا تو 1923ء میں ہندو لیڈر بھائی پرمانند نے تسلیم کیا کہ ہندوستان کو اس طرح تقسیم کیا جا سکتا ہے کہ ایک خطے میں اسلام کو برتری حاصل ہو اور دوسرے میں ہندومت کو‘‘… 1924ء میں لالہ لاجپت رائے نے تو دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا کہ مسلمانوں کو شمال مغربی سرحدی صوبہ‘ مغربی پنجاب‘ سندھ اور مشرقی بنگال دے دیا جائے‘‘۔ اس نوع کے خیالات کی بامعنی صراحت کا شرف اقبال کو حاصل ہے جنہوں نے خطبۂ الہ آباد میں 1940ء میں مسلمانوں کے ایک الگ مسلم وطن کے قیام کو واضح صورت دی۔ علامہ اقبال 1936ء میں محمد علی جناح کے قریب آ گئے تھے۔ انہوں نے جناح کے نام اپنے خطوط میں واضح کیا کہ ایک علیحدہ اسلامی ریاست کا قیام میں ہندوستان میں امن برقرار رکھنے اور مسلمانوں کے مسئلہ کا واحد قابلِ عمل حل ہے‘‘۔
محمد علی جناح نے اس بنیادی نکتے کو اخبار ’’ٹائم اینڈ ٹائیڈ‘‘ میں 1938ء میں ایک مضمون سے واضح کیا جس کا عنوان ’’دوقومی نظریہ‘‘ تھا اور 1940ء میں اس نظریے کی اساس پر ’’قراردادِ لاہور‘‘ منظور کی گئی‘ جسے ہندو پریس نے ’’قرارداد پاکستان‘‘ کا نام دیا۔ مسلمانوں کا یہ مطالبہ اتنا فطری تھا کہ 1947ء میں پاکستان معرض وجود میں آ گیا لیکن انگریزوں اور ہندوئوں کی سازش نے اس منصوبے کا حلیہ غیر فطری صوبائی تقسیم سے بگاڑ دیا۔ اور دونوں قوموں کے مستقبل کو خطرات کے حوالے کر دیا جن کا سامنا اب پاکستان سب سے زیادہ کر رہا ہے لیکن بھارت اب بھی اکھنڈ ہندوستان کے تصور پر قائم ہے۔ اور پاکستان کے امن کو تباہ کرنے کیلئے ریشہ دوانیاں کر رہا ہے۔
’’پاکستان اسی دن وجود میں آگیا تھا جب ہندوستان میں پہلے ہندو نے اسلام قبول کیا تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب یہاں مسلمانوں کی حکومت قائم نہیں ہوئی تھی۔ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمۂ توحید‘ ہے۔ نہ وطن ہے اور نہ نسل۔ ہندوستان کا پہلا فرد جب مسلمان ہوا تو وہ اپنی پہلی قوم کا فرد نہیں رہا۔ بلکہ وہ ایک جداگانہ قوم کا فرد ہو گیا۔ ہندوستان میں ایک نئی قوم وجود میں آ گئی‘‘۔ (انسائیکلوپیڈیا پاکستانیکا۔ ص 491)… چند ماہ کے بعد قائداعظمؒ نے ہندوئوں کے لیڈر موہن داس کرم چند گاندھی کو ایک خط لکھا تو ہندوستان میں مسلمانوں کی علیحدہ قومیت کی وضاحت ان الفاظ میں کی:
’’ہم مسلمان اپنی تابندہ تہذیب اور تمدن کے لحاظ سے ایک قوم ہیں۔ زبان اور ادب‘ فنونِ لطیفہ‘ فنِ تعمیرات‘ نام اور نام رکھنے کا طریقہ‘ اقدار اور تناسب کا شعور‘ قانونی اور اخلاقی ضابطے‘ رسوم اور جنتری‘ تاریخ اور روایات‘ رجحانات اور امنگیں… ہر ایک لحاظ سے ہمارا اپنا انفرادی زاویۂ نگاہ اور فلسفۂ حیات ہے۔ بین الاقوامی قانون کی ہر تعریف کے مطابق ہم ایک قوم ہیں‘‘۔ (خط بنام مسٹر گاندھی۔ 17 ستمبر 1944)
اس قوم کی تاریخ اس دن سے ہندوستان میں شروع ہوئی ہے جب پہلا مسلمان اس ملک میں آیا تھا۔ اور اس روز سے ہی نہ صرف دوقومی نظریے کے خطوط واضح ہونے لگے بلکہ لاشعوری طور پر اس خیال کو بھی تقویت ملنے لگی یہ دو قومیں اکٹھی نہیں رہ سکتیں۔ کیونکہ دونوں قوموں کی تہذیبی روایات اور دینی عقائد مختلف تھے۔ ابو ریحان البیرونی نے اپنی ’’کتاب الہند‘‘ میں 1020ء کے لگ بھگ اپنے مشاہدات کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا:
’’مسلمانوں کو یہ (مقامی باشندے) ملیچھ (ناپاک) کہتے ہیں۔ اس وجہ سے یہ مسلمانوں سے ملنا جلنا‘ شادی بیاہ کرنا‘ قریب جانا‘ مل کر بیٹھنا اور ان کے ساتھ کھانا جائز نہیں سمجھتے۔ اگر کسی مجبوری کے تحت ہندوئوں کو مسلمانوں کے ساتھ ہاتھ ملانا پڑ جائے تو اپنے ہاتھ پر رومال لپیٹ کر ہاتھ ملاتے ہیں۔ صدیوں سے مسلمانوں کیخلاف ہندوئوں کے دل میں جو نفرت کا لاواپک رہا تھا۔ یہ سب کچھ اس کا نتیجہ تھا کہ ہندو مسلمانوں کو تکلیف پہنچاتے۔ ذلیل و خوار کرتے۔ نفرت سے دور رکھتے اور قتل و غارت سے نیست و نابود کرنا زندگی کا جزو سمجھتے‘‘۔ (البیرونی۔ 1020ئ)
ہندو مسلم اختلافات کی یہ خلیج مسلمان حکمرانوں کے دور میں بھی قائم رہی‘ اس دور کی معرکہ آرائیوں میں ہندوئوں کی جنگجو قوم مرہٹوں کی مذہبی منافرت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ سلطان شہاب الدین غوری نے ان اختلافات کا جو حل نکالا وہ ان دوقوموں کی علاقائی علیحدگی پر منتج ہوتا ہے۔ سلطان شہاب الدین غوری نے ہندوئوں کے راجہ پرتھوی راج کو تجویز دی کہ :
’’…ہندوئوں اور مسلمانوں کی باہمی معرکہ آرائی کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کا واحد حل یہی ہے کہ دریائے جمنا کو حدِ فاصل بنا کر برصغیر کو اس طرح تقسیم کر دیا جائے کہ مشرقی ہندوستان پر ہندوئوں کا اور مغربی ہندوستان پر مسلمانوں کا تصرف ہوتا کہ دونوں قومیں امن و امان سے زندگی گزار سکیں۔ یعنی ہندوستان کو دو حصوں میں تقسیم کر لیا جائے۔ پنجاب‘ سندھ‘ سرحد‘ بلوچستان اور کشمیر کا علاقہ مسلمانوں کو دے دیا جائے اور باقی ماندہ ہندوستان پر ہندو قابض رہیں‘‘۔ (بحوالہ سرفراز حسین مرزا‘ پروفیسر احمد سعید)
’’ہندوستان جیسے وسیع و عریض ملک میں جہاں مختلف قومیں اور زبانیں ہیں‘ ایک متحدہ اور مستحکم سلطنت قائم نہیں کی جا سکتی۔ ایک نہ ایک دن پانچ چھ بڑے صوبے بالآخر مکمل اختیارات کے ساتھ آزاد مملکت بن جائینگے‘‘۔ سرسید احمد خان نے 1883ء میں کہا ’’ہندوستان ایک ملک نہیں‘ یہ براعظم ہے اور یہاں مختلف نسلوں اور روایات کے لوگ آباد ہیں‘‘ اور 1867ء میں واضح کر دیا کہ ہندوستان میں دو بڑی قومیں آباد ہیں‘ ہندو اور مسلمان‘‘… دوقومی نظریہ مذہبی اور تہذیبی بنیادوں پر استوار ہوتے ہوتے بیسویں صدی میں پہنچا تو 1923ء میں ہندو لیڈر بھائی پرمانند نے تسلیم کیا کہ ہندوستان کو اس طرح تقسیم کیا جا سکتا ہے کہ ایک خطے میں اسلام کو برتری حاصل ہو اور دوسرے میں ہندومت کو‘‘… 1924ء میں لالہ لاجپت رائے نے تو دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا کہ مسلمانوں کو شمال مغربی سرحدی صوبہ‘ مغربی پنجاب‘ سندھ اور مشرقی بنگال دے دیا جائے‘‘۔ اس نوع کے خیالات کی بامعنی صراحت کا شرف اقبال کو حاصل ہے جنہوں نے خطبۂ الہ آباد میں 1940ء میں مسلمانوں کے ایک الگ مسلم وطن کے قیام کو واضح صورت دی۔ علامہ اقبال 1936ء میں محمد علی جناح کے قریب آ گئے تھے۔ انہوں نے جناح کے نام اپنے خطوط میں واضح کیا کہ ایک علیحدہ اسلامی ریاست کا قیام میں ہندوستان میں امن برقرار رکھنے اور مسلمانوں کے مسئلہ کا واحد قابلِ عمل حل ہے‘‘۔
محمد علی جناح نے اس بنیادی نکتے کو اخبار ’’ٹائم اینڈ ٹائیڈ‘‘ میں 1938ء میں ایک مضمون سے واضح کیا جس کا عنوان ’’دوقومی نظریہ‘‘ تھا اور 1940ء میں اس نظریے کی اساس پر ’’قراردادِ لاہور‘‘ منظور کی گئی‘ جسے ہندو پریس نے ’’قرارداد پاکستان‘‘ کا نام دیا۔ مسلمانوں کا یہ مطالبہ اتنا فطری تھا کہ 1947ء میں پاکستان معرض وجود میں آ گیا لیکن انگریزوں اور ہندوئوں کی سازش نے اس منصوبے کا حلیہ غیر فطری صوبائی تقسیم سے بگاڑ دیا۔ اور دونوں قوموں کے مستقبل کو خطرات کے حوالے کر دیا جن کا سامنا اب پاکستان سب سے زیادہ کر رہا ہے لیکن بھارت اب بھی اکھنڈ ہندوستان کے تصور پر قائم ہے۔ اور پاکستان کے امن کو تباہ کرنے کیلئے ریشہ دوانیاں کر رہا ہے۔