وزیراعظم محمد شہبازشریف اور سعودی ولی عہد و وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان نے پاکستان اور سعودی عرب کے مابین بڑھتے اقتصادی تعاون پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے خطے میں امن و استحکام اور خوشحالی کیلئے اپنے مشترکہ وژن کو فروغ دینے کیلئے ہر سطح پر مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف نائب وزیراعظم اسحاق ڈار‘ چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے ہمراہ عمرہ کی ادائیگی کیلئے سعودی عرب میں موجود ہیں۔ انہوں نے گزشتہ روز سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی جس کے دوران دونوں برادر مسلم ممالک کے قائدین نے پاکستان اور سعودی عرب کے مابین مضبوط اور تاریخی تعلقات کی اہمیت پر زور دیا اور اقتصادی‘ تجارتی‘ سرمایہ کاری‘ توانائی اور دفاع کے شعبوں میں تعاون بڑھانے پر بات چیت کی گئی۔
وزیراعظم شہبازشریف نے اہم شعبوں میں سرمایہ کاری بڑھانے کیلئے سعودی عرب کے عزم کو سراہا‘ فریقین نے دفاعی اور سکیورٹی تعاون کو مضبوط بنانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ سعودی ولی عہد نے سعودی عرب میں پاکستانی کمیونٹی کی نمایاں خدمات کا اعتراف کیا اور انکی فلاح و بہبود کیلئے اقدامات بڑھانے پر اتفاق کیا۔ دونوں رہنمائوں نے عوام کے درمیان روابط‘ ثقافتی تبادلے اور تعلیمی تعاون کو مزید مضبوط بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔
ملاقات کے بعد وزیراعظم شہبازشریف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’’ایکس‘‘ پر پوسٹ کئے گئے اپنے بیان میں کہا کہ سعودی ولی عہد سے ملاقات میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تجارت‘ سرمایہ کاری‘ توانائی اور سکیورٹی کے شعبوں میں تعاون بڑھانے پر تبادلہ خیال ہوا ہے۔ ہم سعودی عرب کے پاکستان سے مسلسل تعاون پر شکرگزار ہیں۔ ہماری پائیدار دوستی اور خوشحالی کیلئے مشترکہ وژن کی بدولت باہمی تعلقات نئی بلندیوں کو چھو رہے ہیں اور مضبوط دوطرفہ تعلقات باہمی اقتصادی شراکت میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ وزیراعظم نے اپنے بیان میں کہا کہ مشرق وسطیٰ اور یوکرائن میں امن کیلئے سعودی عرب کا کردار قابل ستائش ہے۔ دریں اثناء وزیراعظم شہبازشریف سے سعودی وزیر سرمایہ کاری خالد الفالح اور جوائنٹ ٹاسک فورس برائے اقتصادی امور کے سربراہ محمد التویجری نے بھی ملاقات کی جس کے دوران دوطرفہ اقتصادی تعاون کو مضبوط بنانے‘ پاکستان میں مزید سرمایہ کاری لانے اور اہم شعبوں میں مشترکہ اقدامات کو تیز کرنے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیراعظم نے سعودی کاروباری اداروں کو خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کے تحت پاکستان میں کاروباری مواقع تلاش کرنے کی دعوت دی جس پر سعودی وزیر اور ٹاسک فورس کے سربراہ نے پاکستان کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو مزید گہرا کرنے میں سعودی عرب کی گہری دلچسپی کا اظہار کیا۔ انہوں نے اس سلسلہ میں ادارہ جاتی تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا۔ قبل ازیں وزیراعظم شہبازشریف کی وزیر خارجہ اسحاق ڈار‘ آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے ہمراہ مدینہ منورہ آمد پر گورنر مدینہ شہزادہ سلمان بن سلطان نے ان کا استقبال کیا۔ وزیراعظم نے روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی اور مسجد نبوی میں عبادات اور نوافل ادا کئے۔ اس دوران انہوں نے پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کیلئے خصوصی دعا کی۔
بے شک سعودی عرب اور پاکستان کے مابین مسلم برادرہڈ کے ناطے گہرے تعلقات و روابط استوار ہیں اور دونوں ممالک کے علاقائی سٹریٹجیکل مفادات بھی مشترکہ ہیں‘ اس ناطے سے پاکستان اور سعودی عرب کے دفاع اور اقتصادیات کے شعبوں میں باہمی تعاون کی دنیا قائل ہے اور یہ حقیقت ہے کہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے احیاء کیلئے سعودی عرب اور پاکستان کی قیادتیں ہی کلیدی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ سعودی عرب مضبوط معیشت کا حامل ملک ہے جبکہ مسلم دنیا کی پہلی ایٹمی قوت ہونے کے ناطے پاکستان کو مسلم دنیا سمیت پورے خطے میں اہمیت حاصل ہے چنانچہ اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے رکن ہونے کے ناطے پاکستان اور سعودی عرب باہمی تعاون سے خطے میں مسلم بلاک تشکیل دینے کی پوزیشن میں ہیں جس کی مسلم دنیا کیخلاف عالمی صیہونی اور دوسری الحادی قوتوں کی سازشوں کے تناظر میں آج شدت کے ساتھ ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ اگر مسلم ممالک جو تیل‘ گیس‘ کوئلہ اور قیمتی دھاتوں سمیت اپنی اپنی سرزمین میں قدرت کے ودیعت کردہ خزانوں سے مالامال ہیں‘ اپنے وسائل ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرکے اپنی اقتصادی اور معاشی ترقی کیلئے بروئے کار لائیں تو انہیں اپنی اپنی معیشت کو پائوں پر کھڑا کرنے کیلئے نہ صرف عالمی مالیاتی اداروں سمیت دنیا کے دوسرے ممالک کی امداد و تعاون حاصل کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی بلکہ مسلم دنیا باہمی دفاعی تعاون بڑھا کر بیرونی قوتوں کے مقابل اپنا دفاعی حصار بھی مضبوط کر سکے گی۔
مسلم دنیا کیخلاف اسلامو فوبیا جیسے شرانگیز ذہنیت کے حامل مغربی یورپی ممالک اور انکی تنظیموں کی سازشوں کا باہمی اتحاد و یکجہتی کو مضبوط بنا کر ہی موثر توڑ کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح فلسطین اور کشمیر کے تنازعات کی آڑ میں مسلم دنیا کو تقسیم کرکے کمزور کرنے کی سازشوں کا بھی مسلم دنیا کا مضبوط دفاعی حصار بنا کر توڑ کیا جا سکتا ہے جس کیلئے بہرحال سعودی عرب اور پاکستان نے ہی کلیدی کردار ادا کرنا ہے۔ مسلم دنیا کے 56 ممالک اقوام متحدہ کے رکن ہونے کے ناطے انسانی حقوق کے تحفظ کے اس نمائندہ عالمی فورم کو بھی مسلم دنیا کیخلاف جاری سازشوں کے توڑ کیلئے بروئے کار لا سکتے ہیں اور امریکہ اور بھارت کو فلسطین اور کشمیر میں جاری نسل کشی روکنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ چونکہ سعودی عرب اور پاکستان کے دنیا کی دو بڑی طاقتوں امریکہ اور چین کے ساتھ تذویراتی مراسم بھی استوار ہیں‘ اس لئے باہمی ہم آہنگی کے تحت ان دونوں ممالک کے تعاون سے علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کی فضا ہموار کی جا سکتی ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جس طرح پاکستان اور چین کی دوستی شہد سے میٹھی‘ ہمالیہ سے بلند اور سمندروں سے گہری ہونے کے ناطے دنیا میں ضرب المثل دوستی ہے‘ بعینہ سعودی عرب اور پاکستان کی دوستی بھی مثالی ہے اور ان دونوں ممالک نے قدرتی آفات اور آزمائش کے دوسرے مراحل میں باہمی تعاون میں کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بالخصوص برادر سعودی عرب نے پاکستان کی بدحال معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے اور سیلاب‘ زلزلے‘ کورونا جیسی قدرتی آفات سے عہدہ برا ہونے کیلئے اس کے کندھے سے کندھا ملائے رکھا ہے۔ سعودی عرب نے آئی ایم ایف سے نیا بیل آئوٹ پیکیج لینے کیلئے بھی پاکستان کے ساتھ بھرپور تعاون کیا اور خود بھی آسان شرائط پر پاکستان کو قرضہ اور تیل فراہم کرکے اسکی معیشت کو بحال کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
اگرچہ اس وقت پاکستان میں پھیلتی دہشت گردی کے باعث یہاں سرمایہ کاری کی فضا سازگار نہیں ہے‘ اسکے باوجود سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان‘ سعودی وزراء اور مختلف تجارتی وفود پاکستان کا دورہ کرکے یہاں مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کا عندیہ دیتے اور ایم او ایوز پر دستخط کرتے ہیں اور اس مد میں پیش رفت کیلئے عملی اقدامات بھی اٹھاتے ہیں۔ اس تناظر میں وزیراعظم شہبازشریف کی قیادت میں پاکستان کے اعلیٰ سطح کے وفد کے دورہ سعودی عرب سے بالخصوص تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں پاک سعودی تعاون کے نئے راستے کھلنے کے مزید امکانات پیدا ہوئے ہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف اور انکے وفد کے ارکان کا سعودی سرزمین پر جس والہانہ انداز میں استقبال کیا گیا وہ پاک سعودی تعلقات کے مزید مستحکم ہونے کا ہی عکاس ہے۔