چالیس کم سو

نریندر مودی کے ناکام دورہ امریکہ پر بھارتی اپوزیشن اور میڈیا کا غصہ ابھی تھما نہیں۔ مشہور جریدے فرنٹ لائن نے بھی خوب بھڑاس نکالی اور سوال اٹھایا کہ وہ ’’وشواگرو‘‘ کا کیا ہوا؟ 
وشواگرو یعنی جگت گرو۔ بی جے پی کا سوشل میڈیا نریندر مودی کو عالمی رہنما بنا کر پیش کر رہا تھا لیکن لگتا ہے، مودی ’’وشواگرو‘‘ کا مکٹ سر پر پہن کر گئے تو ضرور تھے لیکن واپس آتے ہوئے یہ مکٹ یا توا امریکہ ہی رہ گیا، یا راستے میں ہی گر گیا اور مودی یوں واپس لوٹے جیے کوئی ہارا ہوا جواری گھر آتا ہے۔ 
ٹرمپ نے مودی کے ساتھ وہی کیا جو پانچ روپے میں اونٹ فروخت کرنے والے نے اپنے گاہک کے ساتھ کیا تھا۔ 5 روپے میں اونٹ لے لو کی ہانک سن کر گاہک بھاگا بھاگا اونٹ والے کے پاس پہنچا۔ اونٹ والے نے کہا، ہاں اونٹ کی قیمت بس پانچ روپے ہی ہے لیکن اس کے ساتھ بلی خریدنے کی شرط ہے اور بلّی لاکھ روپے کی ہے۔ٹرمپ نے کہا، ہتھیار لینے ہیں، لے لو ساتھ میں ایف 35 بھی لینا پڑے گا جس کی قیمت 8 کروڑ ڈالر ہے، یعنی پونے تین ارب روپے پاکستانی حساب سے، بھارتی روپیہ تگڑا ہے لیکن ڈالر تو پھر ڈالر ہے، یہی طیارہ چین سے 5 کروڑ ڈالر سے بھی کم کا ملتا ہے۔ مودی پریشان ہے کہ پاکستان ایسے میں جہاز لینے والا ہے۔ مودی چین سے یہ جہاز تو لے نہیں سکتا، پاکستان ہی سے مانگ لے۔ 
مودی کو یقین تھا کہ امریکہ اسے سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت دلوائے گا، ٹرمپ نے تو اس پر بات ہی نہیں کی، استقبال کیلئے بھی کسی ڈھنگ کے منصب دار کو نہیں بھیجا۔ بالواسطہ طور پر بتا دیا، ہم نے کب بلایا، تم خود ہی چلے آئے۔ استقبال کیسا؟۔ ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا، ہم سے فوجی تعاون چاہیئے تو سستے روسی تیل کی جگہ ہمارا مہنگا تیل خریدنا ہو گا۔ 
مودی کے ’’وشوا گرو‘‘ والے ٹائیٹل کا تو ناش وناش اکٹھا ہی ہو گیا۔ جگت گرو کی جگہ اب بھارتیہ گرو ہونے کی خیر منائیں مودی جی! 
_______
ٹرمپ نے نیٹو کو ڈرا کے رکھ دیا ہے۔ اسے گویا بے یارو مدد گار چھوڑ دیا ہے۔ کیا ہونے والا ہے، بہت سے لوگ یہ سوچ رہے ہیں۔ 
1971ء میں امریکہ نے پاکستان کو بھارت کے مقابلے میں اکیلا چھوڑ دیا تھا۔ تب کیا ہوا تھا؟۔ یہ ہوا تھا کہ پاکستان نے اپنا دفاع بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ 1971ء میں پاکستان کوئی خاص فوجی طاقت نہیں تھا۔ بھارت کی ٹکرّ کا تو ہرگز نہیں۔ لیکن اب اس کی فوجی طاقت بہت سے اندازوں سے بھی زیادہ ہے۔ اتنی کہ بھارت جنگ کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہی بات دیکھ لیں کہ 1971ء کے بعد سے اب تک، 55 برس گزر گئے کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ کارگل کی محدود جھڑپ بھی نہ ہوتی اگر مشرف کی جگہ کوئی معقول آدمی ہوتا۔ 
شاید نیٹو بھی اب یہی کرے۔ یوکرائن کے صدر نے گزشتہ دنوں تجویز دی کہ یورپی ممالک اپنی مشترکہ فوج بنائیں۔ 
اس سے پہلے نیٹو کے سیکرٹری جنرل مارک روٹے نے باضابطہ تجویز دی تھی کہ نیٹو ممالک کو اپنے دفاعی اخراجات میں اضافہ کرنا چاہیئے۔ یہ دونوں باتیں کیا بتا رہی ہیں؟۔ ممکن ہے نیٹو خود سے، خودمختار فوجی وجود ENTITY بننے کا فیصلہ کر لے۔ 
نیٹو ممالک کی تعداد 32 ہے، ان میں امریکہ، یورپی ممالک کے علاوہ ترکی بھی شامل ہے۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی اور ترکی کے علاوہ نیٹو کے باقی ممالک کچھ خاص فوجی طاقت نہیں رکھتے۔ امریکہ نیٹو کو چھوڑ دے تو گویا زیادہ بوجھ انہی چار ملکوں پر ہو گا۔ لیکن اگر یہ، باقی کے ،31 ممالک اپنے دفاعی اخراجات بڑھا دیں تو کیا ہو گا؟ اتنے سارے کم قابل ذکر ملک، مل کر بہت زیادہ قابل ذکر ہو جائیں گے۔ 
ٹرمپ کو دنیا کا نقشہ بدلنے کی بہت جلدی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس جلد بازی میں وہ امریکہ سے ’’وشوا گرو‘‘ ہونے کا ٹائیٹل ہی چھین لے۔ مشہور محاورہ ہے کہ جلدی کام ٹرمپ کا، معاف کیجئے گا، جلدی کام شیطان کا۔ 
اس کی جلد بازی سے عرب ممالک پہلے ہی مزاحمت کا سوچ رہے ہیں۔ اسی مہینے کی 26 تاریخ کو ان کا اجلاس ہونے والا ہے، کچھ تو اندازہ ہو ہی جائے گا۔ 
_______
لندن میں مرشد نے کال دی کہ سارے برطانیہ کے پاکستانی اکٹھے ہوں اور پاکستان کے آرمی چیف جنرل حافظ عاصم منیر کے خلاف مظاہرہ کریں۔ ایک تاریخی مظاہرہ۔ 
مظاہرہ ہوا، منتظمین نے بار بار شرکا کی تعداد گنی، کوئی بھی ٹوٹل 60 سے زیادہ کا نہ آیا۔ 60 یعنی جس میں چالیس اور ملا دئیے جائیں تو گنتی سو (100) ہو جاتی ہے۔ اور ان میں سے بھی اکثر اپنے چہرے کیمروں سے چھپانے کی کوشش کرتے نظر آ رہے تھے۔ 
برطانیہ میں سولہ سترہ لاکھ پاکستانی ہیں۔ سولہ سترہ لاکھ میں سے صرف 60 نے مرشد کی کال پر کان دھرے؟۔ چلئے باقی سارے برطانیہ کو چھوڑیں، اکیلے لندن ہی میں تین لاکھ سے زیادہ پاکستانی ہیں، 3 لاکھ میں سے صرف 60 ؟۔ 
مرشد پر جیل میں کیا گزری ہو گی، سوچ کر ہی کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ اطلاع ہے کہ ایک مفرور موٹو میاں جو پاکستان میں مرشد کی حکمرانی کے دنوں میں احتساب کے کرتا دھرتا تھے، اس پر سخت ناراض ہیں، پی ٹی آئی کی لندن قیادت کو خوب سنائیں۔ جو کہا اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ کام کے نہ کاج کے، دشمن اناج کے۔ 
گولڈ سمتھ فیملی نے اس مظاہرے کیلئے اچھے خاصے فنڈ رکھے تھے، سب ضائع ہوئے۔ کتنے فنڈز رکھے تھے، ٹھیک اطلاع تو خود ساختہ جلاوطن موٹو میاں ہی کو ہو گی۔ 
لندن میں حافظ عاصم منیر کو پروٹوکول تو ملنا ہی تھا، لیکن اہم بات یہ ہوئی کہ جو پروٹوکول ملا، وہ معمول کا نہیں تھا، غیر معمولی تھا۔ پروٹوکول میں گرم جوشی بھی کچھ زیادہ تھی، مرشداتی پارٹی کے ارمان البتہ کچھ زیادہ ہی ٹھنڈے پڑ گئے۔
_______
مرشداتی پارٹی نے متحدہ اپوزیشن کا ڈول ڈالا ہے، فی الحال اس ’’الائنس‘‘ میں مرشداتی پارٹی کے علاوہ محض ایک جماعت ہے، محمود اچکزئی کی جماعت۔ نام یاد نہیں آ رہا۔ اس کے علاوہ گلگت تک محدود ایک مسلکی انجمن بھی شامل باجا ہے۔ اور کوئی پارٹی ابھی تک دستیاب نہیں ہو پا رہی۔ مولانا فضل الرحمن کو گھیرا گیا اور انہیں یہ ’’پْرکشش‘‘ پیشکش کی گئی کہ وہ اس متحدہ الائنس کی تحریک کی قیادت فرمائیں۔ 
مولانا نے یہ پْرکشش پیشکش قبول کر لی ہے لیکن ساتھ ہی کچھ بے ضرر سی شرطیں بھی لگا دی ہیں۔ شرط نمبر ایک یہ ہے کہ متحدہ الائنس کی سربراہی میرے پاس ہو گی، شرط نمبر (2 ) پارلیمنٹ میں اپوزیشن لیڈر میں ہوں گا، شرط نمبر (3) پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چیئرمینی میری جماعت کے پاس ہو گی۔ 
مرشداتی جماعت شش و پنج میں پڑ گئی ہے۔ اسے جلد فیصلہ کرنا ہو گا، ایسا نہ ہو، مولانا ایک اور شرط کا اضافہ کر دیں کہ مرشداتی پارٹی کی چیئرمین شپ بھی برادر خورد  مولانا عطاء الرحمن کو دی جائے۔ پھر گوہر خان کا کیا ہو گا؟

ای پیپر دی نیشن