قومی مفاد کے منصوبوں کو سیاست کی نذر نہ کیا جائے

وفاق اور سندھ حکومت نے نہروں کا مسئلہ مذاکرات سے حل کرنے پر اتفاق کرلیا ہے۔ اس حوالے سے وزیراعظم کے خصوصی معاون برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ نے سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل میمن سے فون پر رابطہ کیا جس میں رانا ثنا نے کہا کہ نہروں کے معاملے پر سندھ سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے صدر محمد نواز شریف اور وزیراعظم محمد شہباز شریف نے نہروں کے معاملے پر سندھ کے تحفظات دور کرنے کا کہا ہے۔ شرجیل میمن کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کو دریائے سندھ سے نہریں نکالنے پر شدید تحفظات ہیں، پیپلز پارٹی بھی نہروں کے معاملے پر وفاقی حکومت سے مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ انھوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی سندھ کے عوام کے لیے 1991ء کے معاہدے کے تحت پانی کی منصفانہ تقسیم چاہتی ہے۔
ادھر، وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے کینالز کے معاملے پر ہونے والے احتجاج کے حوالے سے کہا کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کوئی صوبہ دوسرے صوبے کے پانی پر ڈاکا ڈالے۔ احسن اقبال نے دریائے سندھ سے کینالز نکالنے کے تنازع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ بدگمانیاں پیدا کریں گے تو تکنیکی معاملات پر تنازعات پیدا ہو جائیں گے، انجینئرزکا فرض ہے کہ واٹر سکیورٹی پر پلان تیارکریں۔ ہمیں 2047ء تک بھارت کو معاشی میدان میں پیچھے چھوڑنا ہے۔ علاوہ ازیں، میئر کراچی اور سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے وزیراعظم سے کینالز منصوبے کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ نہروں کا معاملہ پنجاب کے وزراء نے خراب کیا۔ مرتضی وہاب نے کہا کہ سندھ نے اپنے مقدمہ کو مضبوطی سے لڑا، وزیراعظم کو بلاول بھٹو کے مطالبے پر کینالز منصوبے کو ختم کردینا چاہیے۔ ہم نے غیر مشروط طور پر حکومت کا ساتھ اس لیے دیا تھا کیونکہ ہمیں ملک میں امن اور خوشحالی پیاری ہے۔ لاہور ہائیکورٹ خود فرما رہی ہے کہ پانی کے لیے کام کیا جائے۔
یہ ایک افسوس ناک بات ہے کہ سندھ کی طرف سے اس مسئلے کو متعلقہ فورمز پر لے جانے اور حکومتی سطح پر مذاکرات کرنے کی بجائے عوام میں لا کر ایسی صورتحال پیدا کی گئی جس سے عام آدمی کے ذہن میں صوبائیت کے مسئلے کو مزید فروغ ملا۔ پیپلز پارٹی وفاق میں قائم حکومت کی اتحادی ہے اور اس وقت اس کے نون لیگ کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ آپس میں بیٹھ کر بات کرنے کی بجائے جلسے جلوسوں میں جذباتی نعرے لگا کر ایک صوبے سے تعلق رکھنے والے عوام کے جذبات کو دوسرے صوبے کے خلاف بھڑکایا جا رہا ہے؟ ہماری سیاسی اشرافیہ کب یہ بات سمجھے گی کہ ملک کی بقاء اور سالمیت کی حفاظت کے لیے یہ ضروری ہے کہ صوبائی اور لسانی جھگڑوں سے جان چھڑا کر پورے ملک کی فلاح و بہبود اور ترقی کی بات کرنے سے ہی مسائل حل ہوں گے؟ صوبائیت اور لسانیت سے ہم مزید ٹکڑوں میں بٹیں گے جس کا فائدہ پاکستان دشمن قوتوں کو پہنچے گا۔
نہروں کے حوالے سے سندھ کی سیاسی قیادت نے جذباتی نعروں کے ذریعے جو ماحول پیدا کیا اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ صوبے کے مختلف حصوں میں قومیت پرست سماجی اور سیاسی جماعتوں کی کال پر ہڑتال کی گئی جس سے صوبے بھر میں کاروباری سرگرمیاں مفلوج ہوکر رہ گئیں۔ قوم پرست جماعتوں کے کارکنوں نے دھرنا دے کر ریلوے ٹریک بھی بند کردیا۔ قوم پرست جماعت کی کال پر جامشورو، کوٹری، نوشہر و فیروز، کندھ کوٹ، خیر پور، جیکب آباد سمیت سندھ کے مختلف شہروں میں کاروباری مراکز اور مارکیٹیں بند رہیں جبکہ سڑکوں پر ٹریفک کی روانی معمول سے کم رہی۔ مظاہرین نے کہا تھا کہ اگر منصوبہ بند نہ ہوا تو ریل کا نظام بھی مفلوج کر دیں گے۔ گمبٹ میں قومی شاہراہ کو بند کر دیا گیا، لاڑکانہ، رتوڈیرو اور باقرانی میں بھی مکمل ہڑتال دیکھی گئی۔ سڑکوں اور بازاروں میں پولیس کی بھاری نفری تعینات رہی۔ خیر پور میں قوم پرست جماعتوں کے کارکنوں نے ریلوے ٹریک پر دھرنا دیا اور لاہور سے کراچی آنے والی عوامی ایکسپریس کو روک لیا۔
اس سب کے بعد اب شاید سندھ کے سیاسی قائدین کو یہ سمجھ آگئی ہے کہ عوام کے جذبات بھڑکانے سے وہ کسی دوسرے کی بجائے اپنا زیادہ نقصان کر رہے ہیں۔ اسی لیے مذاکرات کے ذریعے مسئلے کو حل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہی فیصلہ پہلے بھی کیا جاسکتا ہے۔ جب جنگوں کے فیصلے مذاکرات کی میز پر ہوسکتے ہیں تو ایسے معاملات سے متعلق بات چیت کو آخری آپشن کے طور پر استعمال کرنا کہاں کی دانش مندی ہے؟ قومی مفاد کے معاملات پر اول تو کسی قسم کا اختلاف ہونا ہی نہیں چاہیے اور اگر کسی کو کوئی تحفظات ہوں بھی تو متعلقہ فورمز موجود ہیں جہاں بات کر کے انھیں دور کیا جاسکتا ہے۔ اب وفاق اور سندھ کے مابین اگر یہ طے پا گیا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کا حل نکالنا ہے تو بیٹھ کر تفصیل سے بات کی جانی چاہیے اور اپنی انا کو ایک طرف رکھ کر منصوبے کے تمام پہلووؤں کا جائزہ لیتے ہوئے وہ فیصلہ کرنا چاہیے جس سے پورے ملک کو فائدہ پہنچے اور کسی بھی صوبے کو کوئی بڑا نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہ ہو۔ اور اس مرحلے پر یہ بھی طے کر لینا چاہیے کہ آئندہ ایسے معاملات کو جلسے جلوسوں میں سیاسی نعروں کا موضوع کسی بھی صورت نہیں بنایا جائے گا۔

ای پیپر دی نیشن