اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس میں سپریم کورٹ کے آئینی بنچ کے جسٹس محمد علی مظہر نے دوران سماعت کہا ہے کہ کیا دو ججوں کو واپس لانے کے لیے کوئی دعوت نامہ بھیجیں، ان دو ججوں میں سے ایک جج ملک میں نہیں ہے۔ سربراہ آئینی بنچ نے وکیل فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں آپ ہی ان دو ججوں کو دعوت نامہ بجھوا دیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دئیے کہ 6 مئی کی عدالتی کارروائی کا حکمنامہ پڑھیں، اس حکمنامے پر تمام 13 ججز کے دستخط موجود ہیں، حکمنامے میں کہا گیا کہ ججز نے اختلاف کرتے ہوئے درخواستیں ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کیں۔ پھر بنچ کی دوبارہ تشکیل کے لیے معاملہ ججز آئینی کمیٹی کو بجھوایا گیا۔ بنچ کی دوبارہ تشکیل کے لیے کمیٹی کو بھجوانے پر بھی اختلاف کرنے والے دو ججز نے دستخط کیے، اگر چلتے ہوئے کیس میں کوئی وجوہات بیان کر کے بنچ سے الگ ہو تو معاملہ الگ ہوتا ہے، بنچ کی دوبارہ تشکیل پر دو ججز نے یہ اعتراض نہیں کیا کہ وہ متفق نہیں۔ جسٹس امین نے ریمارکس دیے کہ پہلے بھی بتایا تھا ان دو ججز کی اپنی خواہش تھی کہ وہ بینچ میں نہیں بیٹھیں گے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اختلافی نوٹ لکھنے والے ججز نے تو میرٹس پر بھی بات کی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پنجاب الیکشن کیس میں چار ججز اور تین ججز والی بحث کافی چلی تھی۔ جسٹس جمال نے ریمارکس میں کہا کہ پنجاب الیکشن کیس کا آرڈر آف دی کورٹ آج تک نہیں آیا۔ جسٹس امین نے ریمارکس دیئے کہ جوڈیشل ریکارڈ ابھی آپ کے سامنے نہیں ہے، اس مقدمے میں کیا ہوتا رہا سب کچھ against the clock ہوا، چلیں چھوڑیں آپ کو اندرونی باتیں نہیں معلوم آپ دلائل دیں۔ جسٹس جمال خان نے استفسار کیا کہ کیا جج کھلی عدالت میں کیس سننے سے معذرت کر سکتا ہے یا چیمبر سے بھی ایسا کہا جا سکتا ہے؟۔ فیصل صدیقی نے دلائل میں کہا کہ کیس سننے والا جج کھلی عدالت میں آکر ہی معذرت کرتا ہے۔ جسٹس امین نے ریمارکس دیے کہ ایسی مثالیں ہیں جہاں ججز نے چیمبرز میں بیٹھ کر بھی کیسز سننے سے معذرت کی۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آپ تو اصرار کر رہے ہیں کہ ہم آپ کی دلیل سے متفق ہوں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کیا ہم جوڈیشل آرڈر جاری کریں کہ فلاں جج کو بینچ میں لایا جائے۔ جسٹس صلاح الدین پہنور نے کہا کہ چھ مئی کے حکمنامے کے خلاف کسی نے نظرثانی بھی دائر نہیں کی۔ جسٹس امین نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں آپ ہی ان دو ججوں کو دعوت نامہ بجھوا دیں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آپ مجھے امریکا کا ٹکٹ لیکر دیں میں اس جج کو امریکا سے جاکر لے آتی ہوں۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ویسے بھی 10، 10 سال سے سزائے موت کی اپیلیں زیر التوا ہیں، مخصوص نشستوں سے متعلق اپیلیں بھی زیر التوا کر دیں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ فوجداری کیسز روزانہ کی بنیاد پر سنے جا رہے ہیں، میں نے سب سے پہلے آواز اٹھائی فوجداری کیسز پر سماعت کی جائے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 63 اے کے کیس میں فیصلہ لکھنے والے جج خود نہیں بیٹھے تھے۔ بینچ تشکیل سے متعلق سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے پانامہ کیس کا حوالہ دیا۔ جسٹس جمال نے ریمارکس دیے کہ مخصوص نشستوں کے کیس میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم افغان کا ایک فیصلہ تھا جبکہ ایک فیصلہ میں نے تحریر کیا تھا، میرے فیصلے پر تو نظر ثانی نہیں آئی تو کیا میں بیٹھوں یا اٹھ جاؤں۔ وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ اگر آئینی بینچ کے رولز نہیں بنے تو آئینی بینچ پر پہلے والے رولز کا اطلاق ہوگا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آئین اور قانون میں ترمیم کے بعد مقدمات آئینی بینچ کو منتقل ہوئے۔ جسٹس جمال نے کہا کہ کیا رولز کا اطلاق جوڈیشل کمیشن پر بھی ہوتا ہے۔ وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ لوگوں میں عام تاثر ہے کہ 26ویں ترمیم کے بعد ایک نئی سپریم کورٹ بن گئی اور یہ تاثر درست نہیں ہے، ہمارے لیے کچھ نہیں بدلا۔ سپریم کورٹ میں 26ویں ترمیم کے بعد کوئی تبدیلی نہیں، اس ترمیم کے ذریعے بس ایک نیا اختیار سماعت تشکیل دیا گیا ہے۔ آئینی بینچ بھی وہی اختیار سماعت اختیار کرے گا جو سپریم کورٹ کے اختیار سماعت ہیں۔ جسٹس نعیم افغان نے ریمارکس میں کہا کہ آپ یہ دلائل 26ویں آئینی ترمیم کے کیس میں دیجیے گا۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میں دلائل ختم کرتے ہوئے کہوں گا کہ 185/3 کی نظر ثانی ریگولر بینچ ہی سنے گا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ یہ ممانعت نہیں ہے کہ فلاں جج آئینی بینچ کے لیے نامزد ہوگا اور فلاں نہیں ہوگا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ آئینی بینچز کے لیے نئے ججز نامزد کرنے پر پابندی نہیں ہے، جتنے مرضی ججز نامزد کریں، نہ کسی کو اعتراض ہے یا ہمارا کنٹرول ہے، نئے ججز کی نامزدگی کا اختیار جوڈیشل کمیشن کو حاصل ہے، نئے ججز کی آئینی بنچز کے لیے نامزدگی کا معاملہ ہمارے سامنے ہے ہی نہیں۔