اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ آف پاکستان نے نور مقدم کیس میں مجرم ظاہر جعفر کی قتل کے الزام میں سزائے موت برقرار رکھی ہے۔ جسٹس ہاشم کاکڑ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے مجرم کی سزا کے خلاف اپیل پر فیصلہ سنا دیا ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں ظاہر جعفر کی قتل کے الزام میں سزائے موت برقرار رکھی جبکہ ریپ کے الزام میں ظاہر جعفر کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل کردی۔ عدالت عظمیٰ نے اغوا کے الزام میں ظاہر جعفر کو بری کردیا۔ سپریم کورٹ نے چوکیدار اور مالی کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ مالی اور چوکیدار (افتخار اور جان) جتنی سزا کاٹ چکے ہیں، وہی ان کے جرم کی سزا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ فیصلے کی تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔ قبل ازیں آج نور مقدم قتل کیس کی سماعت کے دوران جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ مقتولہ اور مجرم ظاہر جعفر دونوں کے درمیان ایک ساتھ رہنے کا رشتہ تھا جو یورپ میں ہوتا ہے یہاں نہیں۔ لڑکا اور لڑکی کا ایک ساتھ رہنے کا رشتہ ہمارے معاشرے کی بدبختی ہے۔ اس قسم کا رشتہ مذہب اور اخلاقیات کے بھی خلاف ہے۔ نور مقدم قتل کیس کے مجرم ظاہر جعفر کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ پراسیکیوشن کا سارا کیس سی سی ٹی وی فوٹیج اور ڈی وی آر پر ہے۔ اپیل کندہ کیخلاف شواہد کا شک و شبہ سے بالاتر ہونا ضروری ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں پراسیکیوشن کی فوٹیج چلائی گئی لیکن وہ چل نہ سکی۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ جس سی سی ٹی وی فوٹیج پر آپ اعتراض اٹھا رہے ہیں، اس کو آپ تسلیم کر چکے ہیں، پنجاب فرانزک سائنس لیبارٹری نے بھی کہا سی سی ٹی وی فوٹیج نہ ٹمپرڈ ہے اور نہ ہی اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی۔ سماعت کے دوران مجرم ظاہر جعفر کے وکیل سلمان صفدر کے دلائل مکمل ہوگئے جس کے بعد کیس کے ملزمان چوکیدار اور مالی کے وکیل نے دلائل کا آغاز کردیا اور مؤقف اپنایا کہ چوکیدار اور مالی کو دس، دس سال سزا سنائی گئی۔ وکیل نے کہا کہ مجرم پر الزام ہے کہ انہوں نے مقتولہ کو جانے سے روکا۔ جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دیے کہ اگر مجرمان مقتولہ کو نہ روکتے تو معاملہ کچھ اور ہوتا۔ وکیل مجرمان نے کہا کہ مالی اور چوکیدار کی گھر میں موجودگی کے علاوہ اور کوئی جرم نہیں۔ چوکیدار اور مالی کے وکیل کے دلائل مکمل ہوگئے جس کے بعد نور مقدم کے وکیل شاہ خاور نے دلائل کا آغاز کردیا۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ کیس میں بہت سے حقائق تسلیم شدہ ہیں، تسلیم شدہ حقائق پر دلائل دینے کی ضرورت نہیں۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ نور مقدم خود اس گھر میں آئی تھی کیا اس سے اغوا کی سزا کم نہیں ہوتی؟۔ سی سی ٹی وی ویڈیو نہ بھی ہو تو نور کی لاش مجرم کے گھر سے ملنا کافی ہے۔ وکیل پراسیکیوشن نے کہا کہ ریاست چاہتی ہے اس کیس میں سخت سے سخت سزا دی جائے، یہ معاشرے کے کمزور طبقہ کے خلاف جرم ہے۔ جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دیے کہ اگر آگاہی پیدا کرنا ہے تو نوجوانوں کو لیونگ ریلیشن شپ کے نقصانات اور اثرات سے آگاہ کریں۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ یوتھ کو ڈرگز کے استعمال کے نقصانات سے آگاہ کریں۔ آپ تو کچھ نا کہیں یونیورسٹیوں میں ڈرگز بک رہی ہیں۔