لاوارث بیٹی آمنہ کی خاموش چیخ، باپ تم کہاں ہو؟ 

شاہد نسیم چوہدری (ٹارگٹ)
0300-6668477
میرے سامنے آٹھ ماہ کی ایک معصوم بچی گود میں لیٹی ہوئی ہے۔ نرم و نازک ہاتھ، بڑی بڑی بولتی آنکھیں، جن میں کوئی شکوہ نہیں، کوئی سوال نہیں۔ لیکن اگر اس بچی کی آنکھوں میں جھانکا جائے تو یوں لگتا ہے جیسے وہ پکار رہی ہو: "میرا باپ کہاں ہے؟"۔اس بچی کا نام آمنہ حیدر ہے۔ اور اس کا باپ؟ وہ تو شاید صرف اس کی پیدائش کا سبب تھا، پرورش کا ذرا سا بھی خیال نہ آیا۔ ماں کہتی ہے، "جب آمنہ میرے پیٹ میں تھی اور شوہر کو معلوم ہوا کہ بیٹی ہونے والی ہے، تو اْس نے اْسی وقت مجھے چھوڑ دیا۔" یہ جملہ صرف ایک عورت کا دکھ نہیں، بلکہ ہمارے معاشرے کا وہ چہرہ ہے جو بیٹی کو آج بھی بوجھ سمجھتا ہے۔ہم 21ویں صدی میں جی رہے ہیں، مگر سوچیں ابھی تک جہالت کے گھوڑے پر سوار ہیں۔ یہ پہلی کہانی نہیں، نہ آخری۔ مگر آمنہ کی صورت میں یہ کہانی گویا میرے ہاتھوں میں دھڑک رہی ہے۔ ایک ایسی دھڑکن، جس کا باپ موجود ہونے کے باوجود لاپتہ ہے۔ ایک ایسا باپ جس نے نہ صرف اپنی شریک حیات کو بییار و مددگار چھوڑا بلکہ اپنی اولاد سے منہ موڑ کر خود کو انسانیت سے بھی محروم کر دیا۔ایسی صورتحال میں ایک ماں کا کردار کسی مجاہد سے کم نہیں۔ آمنہ کی ماں سلائی کرتی ہے، گھروں میں کام کرتی ہے، بھٹوں پر مزدوری تک کر چکی ہے تاکہ اپنی بچی کو دو وقت کی روٹی دے سکے، دوا دے سکے، محبت دے سکے۔ شاید اسی لیے کہتے ہیں کہ ماں کی محبت خدا کی محبت کے بعد سب سے عظیم ہے۔عدالت میں یہ مقدمہ اب پیش ہوگا۔ ایڈووکیٹ فہیم کھوکھر کی کاوش قابلِ تعریف ہے کہ وہ ایسی لاوارث چھوڑ دی گئی بیٹیوں کی آواز بن رہے ہیں۔ قانون کا دروازہ کھٹکھٹانا ایک حوصلہ ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب صرف ایک فرد نہیں بلکہ پورے معاشرے کو آئینہ دکھایا جا سکتا ہے۔ کیا باپ صرف نطفہ دینے والا ہوتا ہے؟ یا اس پر بھی کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟
عدالتیں اگر ایسے باپوں کو صرف جرمانہ ہی نہ کریں بلکہ ان پر اخلاقی اور سماجی ذمہ داری بھی عائد کریں تو شاید آئندہ کوئی آمنہ یوں بے یار و مددگار پیدا نہ ہو۔ بیٹی صرف گھر کی زینت نہیں، وہ محبت کا مکمل پیکر ہے۔ جو لوگ بیٹی کے وجود کو بدقسمتی سے تعبیر کرتے ہیں، وہ دراصل اپنے نصیب کے دروازے خود بند کر رہے ہوتے ہیں۔ بیٹی کو بوجھ سمجھنے والے دراصل وہ بوجھ ہوتے ہیں جنہیں معاشرہ بہت جلد فراموش کر دیتا ہے۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ ایسے باپ آج بھی آزادی سے گھومتے ہیں، دوسری شادیاں کرتے ہیں، مگر ان کی پہلی اولاد، خصوصاً بیٹیاں، ان کی یادوں سے بھی خارج ہو چکی ہوتی ہیں۔ کیا یہ معاشرتی، اخلاقی اور مذہبی طور پر قابلِ قبول ہے؟ یقیناً نہیں۔
قرآن مجید میں بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے والوں کے خلاف سخت وعید آئی ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی، وہ جنت کا حقدار ہے۔"
پھر ہم کس تعلیم پر چل رہے ہیں؟آمنہ کی کہانی کو میں جذباتی نگاہ سے نہیں دیکھ رہا بلکہ سماجی آئینے میں ایک سچائی کے طور پر دیکھ رہا ہوں۔ آمنہ صرف ایک بچی نہیں، وہ ہمارے معاشرے کے اس رویے کی علامت ہے جو بیٹیوں کو بوجھ سمجھتا ہے اور بیٹوں کو وارث۔ مگر آمنہ جینے کی جدوجہد کر رہی ہے۔ وہ ہر دن اپنی ماں کے ہاتھوں کی محنت سے سانس لیتی ہے۔ وہ بظاہر خاموش ہے، لیکن اس کی خاموشی میں ایک انقلابی چیخ چھپی ہے، جو کسی دن اس سماج کو جگا دے گی۔یہ تحریر لکھتے وقت میری انگلیاں کانپ رہی ہیں۔ دل دہل جاتا ہے کہ کوئی باپ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ مگر حقیقت یہی ہے۔ شاید ایسے ہزاروں باپ اس ملک میں موجود ہیں جن کے دل بیٹی کے نام سے خالی ہو چکے ہیں۔میں عدالت سے، سماج سے، اور تمام صاحبانِ اقتدار سے گزارش کرتا ہوں کہ آمنہ جیسے بچوں کو نہ صرف قانونی تحفظ دیا جائے بلکہ ان کے باپوں کو شرم دلانے کے لیے میڈیا، قانون، اور سوشل ادارے مل کر کردار ادا کریں۔
اور ایسے وکلاء￿  جو انسانیت کی آواز بن رہے ہیں، جیسے ایڈووکیٹ فہیم کھوکھر، وہ قابلِ تحسین ہیں۔ ایسے وکلاء￿  ہی معاشرے کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی ہمت رکھتے ہیں۔
آخر میں بس اتنا کہوں گا:
> بیٹیاں اگر مقدر نہ ہوتیں، تو خدا بیٹیوں کو نبیوں کے گھر نہ بھیجتا۔
اگر بیٹیوں کی پرورش باعثِ فخر نہ ہوتی، تو نبی اکرم ? فاطمہ? کو "میری ماں" نہ کہتے۔
آمنہ کا مقدمہ ایک بچی کا مقدمہ نہیں، یہ ہماری اجتماعی بے حسی کے خلاف ایک چارج شیٹ ہے۔
اس بار اگر فیصلہ انصاف کے حق میں آیا، تو شاید ہزاروں آمنائیں ایک بار پھر اپنے باپوں سے سوال کر سکیں گی:
"کیا تم نے مجھے اس لیے چھوڑا کہ میں بیٹی تھی؟ یا اس لیے کہ تم مرد ہونے کے باوجود مردانگی سے خالی تھے؟"
باپ کے نام میرا ایک سوال ہے۔۔۔
تم نے اْس وقت مجھے چھوڑ دیا جب میں ماں کے پیٹ میں ایک سانس بھی پوری نہ لے سکی تھی… کیا میری آہٹ سے تمہیں ڈر لگتا تھا؟ کیا میری معصوم آنکھوں نے تمہیں شرمندہ کر دینا تھا؟
یاد رکھو! میں تمہارے نام کے بغیر جی رہی ہوں، لیکن تم ہمیشہ میرے وجود کے سوال سے بھاگتے رہو گے۔
میں آج بھی وہی ہوں… تمہاری بیٹی… آمنہ…
وہ جو آئی تو تھی تمہاری دنیا میں محبت مانگنے، مگر تم نے مجھے آنے سے پہلے ہی لاوارث بنا دیا۔

ای پیپر دی نیشن