ٓٓٓٓاحترام ماہ  رمضان

فیض عالم 
قاضی عبدالرئوف معینی
ماہ مقدس رمضان اللہ پاک کا مہینہ ہے ۔یہ عبادت ،بندگی اور عبودیت کا مہینہ ہے ۔رمضان المبارک تقویٰ کے حصول کامہینہ ہے ۔روحانی تربیت اور اصلاح کا بہترین ذریعہ ہے ۔ایک زمانہ تھا جب ماحول ایک روحانی اور وجدانی سماں کا منظر پیش کر رہا ہوتا تھا۔پیر و جواں ،مرد  و  زن استقبال رمضان کے لیے تیار ہو جاتے تھے۔روزہ  و نماز اور تلاوت کلام پاک کے معمولات بن جاتے تھے۔ماہ صیام کا دل و جان سے احترام کیا جاتا تھا۔اگر کوئی فردکسی شرعی عذر کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکتا تو وہ اس کو ظاہر نہیں کرتا تھا۔مجبوری کے طور پر کھانے پینے کے لیے سات پردوں کا انتظام کیا جاتا تھا دن کے وقت چولھا جلانا انتہائی معیوب سمجھا جاتا تھا۔پھر ہوا یوں کہ مسلماناں پاکستان ’’ ترقی ‘‘کر گئے ،تعلیم یافتہ ہو گئے اور  تھوڑے سے ماڈرن بھی ہو گئے۔شرم و حیا رخصت ہوتی چلی گئی،اخلاقی اقدارکے جنازے اور تدفین کے بعدایک نیا معاشرہ معرض وجود میں آیا۔ماہ مقدس میں سر عام سگریٹ نوشی اور کھانا پینا معمول بن گیا ہے۔ بے شرمی کی انتہا کہ سب کچھ سر عام ہو رہا ہے اور شرمندگی کا احساس بھی نہیں ۔شرعی عذر تو دور کی بات ہٹے کٹے نوجوان روزے نہیں رکھ رہے۔ بہت کم لوگوں کے علم میں شاید ہو کہ ملک عزیزمیں ایک قانون پاس کیا گیا ہے  جسے ’’احترام رمضان آرڈیننس کہا جاتا ہے۔اس آرڈینینس کے تحت عوامی مقامات پرکھانا پینا اور سگریٹ نوشی ممنوع ہے۔اس آرڈینینس کی دفعہ ۳ کے تحت کوئی بھی ایسا فردجس پر اسلامی قوانین کے تحت روزہ رکھنا لازم ہے اسے روزے کے وقت کے دوران عوامی مقامات پر کھانے پینے کی ممانعت ہوگی اور اگر کوئی ایسا کرتاپکڑا گیا تو اسے قید اور جرمانے کی سزا دی جائے گی۔اس قانون کے تحت بنائے گئے قواعد کی رو سے ہسپتال کی کینٹین سے  صرف وہ افراد کھانا لے کر جا سکتے ہیں جو مریض ہوں۔ہوائی اڈہ، لاری اڈہ اور ریلوے سٹیشن سے وہ افراد کھانا کھا سکتے ہیںجن کے پاس ٹکٹ یا وائوچر ہو جس سے ثابت ہوتا ہوکہ وہ افراد ۷۵ کلو میٹر سے زیادہ کا سفر کر رہے ہیں۔  بات سچ بھی ہے اور رسوائی کی بھی کہ خطہ پاک جو اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا اور جسے اسلام کا قلعہ بھی کہا جاتا ہے اور جس کی کثیر آبادی اسلامی لبادہ اوڑھے ہوئے ہے،اس میںاحترام رمضان آرڈینینس کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ہسپتالوں کی کینٹینز پر لاری اڈوں اور ریلوے سٹیشنز کے ہو ٹلوں پر روزہ خور وں کے اجتماع نظر آتے ہیں۔ایک اسلامی ریاست میںماہ  رمضان کے تقدس کی پامالی کسی طور درست نہیں۔انتظامیہ خاموش تماشائی ہی نہیں بلکہ اسے تو شاید احساس بھی نہ ہو کہ اس قانون کو بھی نافذ کرنا ہے۔کوئی خبر سننے کو نہیں ملتی کہ  اس قانون کی خلاف ورزی پر کوئی کیس درج ہوا ہو۔فرد واحد کی توہین ہو تو قانون حرکت میں آ جاتا ہے لیکن ماہ مبارک کی توہین پر خاموشی کیوں ۔دینی اور اسلامی شعائر کا احترام ہر فرد پر لازم ہے۔اس حوالے سے کسی قسم کی بے ادبی سے ملکی قوانین سے تو شاید بچ جائیں لیکن عذاب الٰہی سے نہیں بچا جا سکتا۔ملک پاکستان کے ابتر حالات کی ایک بڑی وجہ یقیننا یہی ہے۔
گزشتہ چند سالوں سے الیکٹرانک میڈیا پر رمضان ٹرانسمشن کا رواج شروع ہوا۔ یہ احسن اقدام تھا لیکن برا  ہو  ریٹنگ کی دوڑ کا، جس کی وجہ سے  بہت سی خرافات نے جنم لیا۔مخلوط پروگرام ،غیر شائستہ حرکات ،دینی شعائر کا مذاق عام ہتا جارہا ہے۔علماء کے روپ میں چند شعبدہ بازدین متین کی غلط تشریح کر کے دینی اقدار کا مذاق اڑا رہے ہیں۔
گزشتہ کالم میں بھی گراں فروشوں اور ذخیرہ اندوزوں کو لگام دینے کے حوالے سے اپیل کی گئی ۔ عوام انتہائی مہنگے داموں اشیائے خوردو نوش خریدنے پر مجبور ہے جو حکومتی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت اورپرائس کنٹرول کمیٹیوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ناجائز منافع خوروں کیخلاف سخت قانونی کاروائی کی جائے تاکہ عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے کی کوششوں کو ناکام کیا جا سکے۔سچ تو یہ ہے کہ جو کچھ ہمارے معاشرہ میں ہو رہا ہے یہ  عذاب الٰہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ اس قوم کی اکثریت گفتار کی غازی ہے۔باتیںبہت کرتے ہیںلیکن عمل ندارد۔کتنے بد نصیب ہیں وہ لوگ جو  رحمت ، بخشش اور مغفرت کے مہینے میں بھی شیطانیت سے باز نہیں آرہے۔اس مہینے میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں لیکن حالت یہ ہے کہ
دوزخ کے انتظام میں الجھا ہے رات دن
دعویٰ یہ کر رہا ہے کہ جنت میں جائے گا
 رمضان المبارک روحانی تربیت، انفرادی اور اجتماعی اصلاح کا موقع فراہم کرتا ہے اس لیے اس کی برکات سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔

قاضی عبدالرؤف معینی

ای پیپر دی نیشن