کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ کتابیں باتیں کرتی ہیں۔ یوں تو آئے روز ایسی کتب گھر کی رونق بنتی ہیں کہ جن میں مصنف یہ تقاضا کرتا ہے کہ ان کی کتاب کا ایک ریویو پیش کروں۔سابق چیف جسٹس آف پاکستان کی کتاب کے اوراق کو آگے پیچھے کیا لیکن پڑھنے کا موقع نہیں مل سکا۔ پنجاب پولیس سے اہم شخصیات کی جانب سے کتابوں کا بھی سرسری جائزہ لیا مگر قلم کشائی کا موقع نہیں مل سکا۔ مگر سعید آسی صاحب اور سابقہ ڈی آئی جی طاہر انوار پاشا کے سفر نامے ایسے تھے کہ جنہوں نے مجھے حقیقتاً متاثر کیا۔اعلیٰ پایہ کے صحافی، ادیب، شاعر محترم سعید آسی نے 70ء کی دہائی میں جس ادبی سفر کا آغاز کیا اس کی روشنی سے ہزاروں تشنگانِ علم مستفید ہوئے اور مسلسل ہو رہے ہیں۔ گزشتہ تنتالیس برس سے وہ نوائے وقت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ کالم و تجزیہ نگاری کے باعث اہلِ علم کے حلقے میں اپنا منفرد مقام رکھتے ہیں۔ حکمران اشرافیہ طبقات کے بارے میں اتنی لطافت سے بے باک تبصرہ کرتے ہیں کہ ان کی گفتگو، بات اذہان کو جھنجھوڑے اور متاثر کیے بغیر نہیں رہ سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ ایشیئن کلچرل ایسوسی ایشن نے ان کی قلمی و ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں لائف ٹائم اچیوومنٹ ایوارڈ سے نوازا۔ موصوف بارہ کتابوں کے مصنف ہیں۔ یہ کتابیں فصاحت و بلاغت کے عجب شاہکار ہیں۔ خواہ وہ مادری زبان میں ہوں یا قومی زبان میں، ہرکوئی ان کے نادر علمی شاہ پاروں سے محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ’’کس کی لگن میں پھرتے ہو‘‘ کہنے کو تو ایک سفرنامہ ہے لیکن اصل میں چند تاثرات کا مجموعہ ہے جو کہ سعید آسی نے 1990ء میں حاکم وقت میاں نواز شریف کی قیادت میں سرکاری دورہ مالدیب سرانجام دیا اور 1996ء میں برونائی اور انڈونیشیا کے اس سفر کی داستان ہے جو کہ اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بے نظیربھٹو کے ساتھ طے کیا۔
جب پہلی بار سفرنامہ میری نظروں سے گزرا تو اس کے دلچسپ ٹائٹل نے ہی پڑھنے کا اشتیاق و تجسس جاگزین کر دیا۔ بعد از مطالعہ، یہ حقیت آشکار ہوئی کہ سفر نامہ ’’کس کی لگن میں پھرتے ہو‘‘ دراصل اس جذبہ کی تشریح کرتا ہے جو تلاش بینی کرتے ہیں۔ یہاں لگن سے مراد ہے دیارِ غیر کے بارے میں جاننا اور اپنی تہذیب و ثقافت سے ان کا موازنہ کرنے کی خواہش کی آبیاری کرنا ہے۔ اتنی رنگینیوں کے باوجود وطن کی محبت میں ادارے اور عوام کو باوثوق اور بروقت خبر پہنچانے کی فکر میں تگ ودو کرنا ہی لگن میں پھرنے کے مترادف ہے۔حرفِ اوّل کی پہلی ہی لائن نے اڑھائی سو صفحات کے دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے جس میں سعید آسی کہتے ہیں کہ ’’مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ میرے مقدرات کے سفر کی کہانی رنگین سے زیادہ سنگین ہے‘‘۔ ذوق رکھنے والا قاری بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ سفرنامہ کی اصل روح کس مرکز کے گرد گھومتی ہے! پھر سعید آسی کی صحافتی دور اندیشی، حکمت و بصیرت اس امر سے جھلکتی ہے کہ انہوں نے اپنے سفر کی روداد کو صرف مالدیب، برونائی اور انڈونیشیا تک ہی محدود رکھا اور ابوظہبی اور دوبئی کے مشاہدات کو، جن میں آدابِ شاہی کے قصے اور انسانی جاہ حشمت کے نظارے تھے، سفر نامے کا حصہ نہیں بننے دیا کیونکہ یہ ہمارے اور اسلامی ممالک کے برادرانہ تعلقات کا معاملہ ہے۔ اس کا اسلوب نہایت عمدہ ہے۔ ایک اور چیز جو میں نے اس سفرنامہ میں نوٹ کی اس میں طنزومزاح کی شیرینی شامل ہے۔ مزید برآں تمثیلات بھی اپنا جلوہ دکھانے میں پیش پیش ہیں۔ مثال کے طور پر سعید آسی نے لکھا کہ ہمارے ملک میں اسمبلیاں جتنی تیز رفتاری سے ٹوٹتی رہی ہیں شاید دیہات کے کسی گھر میں موجود کچے گھڑے بھی اتنی جلدی نہیں ٹوٹتے۔ ابلاغ میں مزید وزن پیدا کرنے کے لیے اسے بے شمار اور نادر اشعار سے مزین کیا گیا ہے۔ مصنف نے سفرنامے کا ایسا نایاب نقشہ کھینچا ہے اور ایئرپورٹ کے لیے تیاری و روانگی کے خاکے اس طرح ترتیب دئیے ہیں کہ ہر پڑھنے والا سمجھتا ہے جیسے وہ خود سعید آسی ہو اور ان ممالک میں موجود ہو۔ سفرنامے میں مالدیپ کی آب وہوا کے بارے میں جان کر بہت حیرانی ہوئی کہ یہاں بادل بغیر کسی گھن گرج کے اچانک برستے ہیں اور ریتلی زمین بارش کے پانی کو یوں جذب کرتی ہے کہ پانی و کیچڑ کا نام و نشان نہیں رہتا۔ مالدیپ کے بارے میں ایک اور انفارمیشن جسکے بارے میں ہمارے ہاں غرابت پائی جاتی ہے وہ یہ کہ مالدیپ کے افسران سائیکل کے ذریعے اداروں تک رسائی حاصل کرتے ہیں اور عوام کی کثیر تعداد پیدل سفر کرتی ہے۔ جس کی وجہ سے یہاں آلودگی صفر کے برابر ہے۔ اسکے برعکس برونائی میں خاکروب کے پاس بھی گاڑی ہے! سفرنامے کے صفحہ نمبر133 میں سلطان برونائی کی خصوصیات قلمبند کیں جو کہ عصرِ حاضر کے حکمرانوں کے لیے ایک سبق کی حیثیت رکھتی ہیں کہ برونائی کے سلطان اپنی زندگی کے معمولات میں برونائی کے باشندوں سے ملاقات نہیں کرتے مگر ہر عید کے موقع پر وہ اپنے محل میں مسلسل تین روز تک اپنی رعایا کے درمیان رہتے ہیں۔
اس پر سعید آسی نے خوبصورت تجزیہ پیش کیا ’’دراصل ہمارے حکمران جب اپوزیشن میں ہوں تو انہیں عوام اچھے لگتے ہیں مگر جب ان کے سہارے وہ اقتدار تک رسائی حاصل کرلیتے ہیں تو پھر عوام انہیں کیڑے مکوڑے نظر آتے ہیں۔ انڈونیشیا کے رنگ اس سفرنامے میں خوب ظاہر ہوئے۔ حواس باختہ حقائق کہ سب سے بڑ اسلامی ملک ہونے کے باوجود یہاں دیو مالائی کلچر عام ہے۔ چنانچہ ہر مقام پر بڑی بڑی مورتیاں نصب ہیں۔ میرے نزدیک اگر کوئی مالدیب، برونائی، انڈونیشیا کا سفر کرنا چاہتا ہے تو وہ سعید آسی کے سفرنامے سے استفادہ کر سکتا ہے۔ سفرنامے کے مطالعہ کے بعد اسے دیارِ غیر میں یقینا مانوسیت کا احساس ہوگا۔ بلاشبہ یہ سفرنامہ دورِ جدید کے صحافیوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ کہنے کو تو یہ سرکاری دورے تھے مگر تعیشات اور سہولیات کے فقدان کے باوجود صبروبرداشت کا مظاہرہ کیا گیا۔ اگر شکوہ کیا بھی تو خود سے ہی کیا۔ سعید آسی نے کٹھن اور مہم جوئیانہ سرکاری دوروں کے باوجود اپنے عزم میں لغزش آنے نہیں دی۔ بس ایک لگن تھی اور وہ تھی ذمہ دارانہ صحافت کی۔