پاکستان جب سے معرض وجود میں آیا ہے تب سے مختلف مافیا نے عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے آج تک کسی کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی نہ ہی کسی کو عبرت کا نشان بنایا گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عوام ہمیشہ مسائل سے دوچار رہے۔اس سال بھی یہی ہوا ہے رمضان میں عوام کوپرچون سطح پر ایک کلو چینی 180 روپے سے 200 روپے میں خریدنی پڑ رہی ہے،جبکہ پولٹری مافیا عوام کو ایک کلو برائلر مرغی کا گوشت 595 روپے کی مقررہ قیمت کی بجائے 700روپے سے 750 روپے بلیک میں فروخت کر رہا ہے۔جب ملک میں اس سال کرشنگ سیزن شروع ہوا تو اس وقت میں نے ایک کالم لکھا تھا اس کا کچھ حصہ میں دوبارہ رپیٹ کروں گا اگر اس وقت حکومت نے میرے کالم کو سنجیدگی سے لیا ہوتا تو آج صورتحال تبدیل ہونی تھی۔اب میرا اس صورتحال میں سوال ہے کہ حکومت اب کیا اقدام کرے گی کہ عوام کو چینی معقول ریٹ پر ملے۔میرا آج کا کالم اس شعبے میں تحقیق کرنے والے دوست کے اعدادوشمار پر مبنی ہے جس میں انکشاف ہوا ہے کہ ملک میں سال 2024-25 کے کرشنگ سیزن کیلئے ریکارڈ پیداوار کے حوالے سے شوگر مل مالکان اور حکومت دونوں کے دعوؤں کے برعکس، بڑے رقبے پر کاشت ہونے کے باوجود پچھلے سال کے مقابلے گنے کی پیداوار اور چینی کی مینوفیکچرنگ میں حیرت انگیز طور پر کمی دیکھی گئی ہے۔
واضح رہے کہ برآمد کی اجازت کیلئے اپنا کیس پیش کرتے ہوئے پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن 2024-25 کے سیزن کے دوران گنے کی متوقع ذیادہ پیداوار کے تخمینہ کا دعویٰ کرتی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ ملک میں 2.0 ملین ٹن تک اضافی چینی کی دستیابی ہوگی جس میں سے حکومت کو بڑا حصہ برآمد کردینا چاہئے۔
تاہم اس کے بر عکس چینی کی مینوفیکچرنگ میں واضح کمی دیکھی گئی ہے اورموجودہ سال میں اسکی رسد اور طلب کے درمیان ایک ایسے وقت میں بڑا فرق سامنے آیا ہے جب چینی کی برآمد کو ایک حکومت کی ایک بڑی کامیابی کے طور پر ابھی چند دن پہلے ہی پیش کیا گیا تھا۔مختلف دعوئوں کے برعکس اعداد و شمار ایک مختلف صورتحال کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ نومبر 2024 سے فروری 2025 کے آخری ہفتے تک چینی کی کل پیداوار 5.370 ملین ٹن رہی جو پچھلے سیزن کی اسی مدت میں 6.056 ملین ٹن تھی۔ اس طرح پچھلے سال کی اسی مدت کے مقابلے میں چینی کی پیداوار میں 11 فیصد کی خاطر خواہ کمی دیکھی گئی جو کہ پیداوار میں 0.686 ملین ٹن کی نمایاں کمی کو ظاہر کرتا ہے۔وفاقی وزیر خزانہ نے 11 مارچ کو 2024-25 کے سیزن کے لیے چینی کی کل پیداوار 5.7 ملین ٹن بتائی تھی۔ اعداد شمار کے مطابق 0.766 ملین ٹن کی ری اوور سٹاک کے ساتھ، موجودہ سال کے لیے چینی کی دستیابی کا 6.466 ملین ٹن کا مناسب تخمینہ تھا۔تاہم اس سال کے اوائل میں چینی کی پیداوار میں کمی کے باوجود برآمدات کے جاری رہنے سے چینی کی طلب اور رسد میں تفاوت کو بڑھا دیا۔ اگر حکومت شوگر ایڈوائزری بورڈ کے اجلاسوں میں مینوفیکچرنگ کے حجم کو فعال طور پر مانیٹر کرتی اور اس کے مطابق مختص کردہ برآمدی کوٹہ پر قدغن لگادیتی تو صارفین کو چینی کی قیمتوں میں اضافے کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور موجودہ سیزن میں چینی کی کم پیداوار کے باوجودجود درآمدکی ضرورت نہ پڑتی۔ مگرتوقع سے کم پیداوار کے باوجود، حکومت نے چینی کی برآمد جاری رکھنے کی پر خاموشی قائم رکھی۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، گزشتہ تقریباً دو مہینوں میں میں دو لاکھ ٹن سے زائد چینی برآمد کی گئی جس سے چینی کی قومی پیداوار میں فرق مزید واضح ہو گیا۔
اس سال کی 5.7 ملین ٹن چینی کی پیداوار نہ صرف پچھلے سال کے مقابلے میں کم ہے بلکہ پانچ سال کی اوسط سے بھی کم رہی ہے۔ یہ خطرناک رجحان ملک میں چینی کی فراہمی کے بارے میں سنگین خدشات کو جنم دیتا ہے جس سے آنے والے مہینوں میں مقامی سپلائی اور مارکیٹ کی قیمتوں دونوں پر سنگین اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔ لہٰذا، موجودہ سال کی چینی کی پیداوار اور بے لگام برآمدات جیسے بنیادی مسائل کو حل کرنے کے لیے حکومت کی اسٹریٹجک مداخلت کی ضرورت ہے۔چینی کی پیداوار کے اعداد و شمار پر تبصرہ کرتے ہوئے صنعت و پیداوار کے بارے میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی ہارون اختر خان نے کہا کہ ریفائنڈ چینی کی برآمد کی اجازت صرف سیزن 2023-2024 کے لیے دی گئی تھی۔ 2023-24 میں تقریباً 1.3 ملین ٹن کے فاضل ذخیرے میں سے صرف 750,000 ٹن چینی کی برآمد کی اجازت تھی۔ 2023-24 کے سیزن کی پیداوار سے بیلنس اسٹاک 500,000 ٹن سے زیادہ تھا۔ انکا کہنا تھا کہ سیزن 2024-25 کے لیے سفید چینی کی برآمد کی اجازت نہیں تھی۔
تاہم انہوں نے 2024-25 گنے کی کرشنگ سیزن کے دوران چینی کی برآمد جاری رکھنے کے پس پردہ رجحان پر کوئی تبصرہ نہیں کیاشوگر ایسوسی ایشن کے ایک سینئر ممبر نے موجودہ صورتحال کے بارے میں کہا کہ مختلف حلقوں کی جانب سے پیشگی وارننگ کے باوجود سیزن کے آغاز میں چینی برآمد کرنے کے متنازعہ فیصلے کے بعد، چینی کی قیمت آسمان کو چھونے لگی ہے اور ایسا خدشہ ہے کہ یہ مزید بڑھے گی اور بظاہر قابو سے باہر ہے۔انہوں نے زور دیا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ فعال پالیسی اپنائے اور تین سے پانچ لاکھ ٹن چینی درآمد کرے تاکہ سپلائی میں بڑھتے فرق اور قیمتوں میں اضافے کو کنٹرول کیا جا سکے۔شوگر باڈی کے ایک اور سینئر ممبر نے اصرار کیا کہ چینی کا موجودہ بحران اس وقت پیدا ہوا جب حکام چینی کے وافر اسٹاک کو سمجھداری سے سنبھالنے میں ناکام رہے۔
یہ تھی اب تک کی صورتحال جو میں نے آپ کے سامنے پیش کی ہے جبکہ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ حکومتی ذمے داران سے ایک سوال ہے کہ ملک میں مافیا اور گراں فروشوں کے سدباب کیلئے کیا اقدام کئے گئے ہیں میرے پاس اس کی دلیل ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف ایک سے ذیادہ مرتبہ شوگر ملوں پر سیلز ٹیکس کی خردبرد کا اظہار کر چکے ہیں۔میرا سوال اس لئے ہے کہ مافیا اس وقت وجود میں آتے ہیں جب وہ اداروں کی ملی بھگت سے ٹیکسوں کے خردبرد کرتے ہیں یا ملک میں بلیک اکانومی کا وجود قائم ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں بلیک اکانومی ختم کرنے کیلئے کئی مرتبہ اقدام کئے گئے ٹیکس ایمنسٹی سکیمیں متعارف کرائی گئیں کاروبار کی ڈاکومنٹیشن کیلئے کوششیں کی گئیںلیکن حکومتوں کی ہر کوشش کو ناکام بنایا گیا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا گیا۔اس وقت عوام کوتو قدرے سستا آٹا مل رہا ہے لیکن کسانوں کو انکی گندم کی اعلان کردہ قیمت نہیں ملی اسی طرح گزشتہ سال حکومتی سطح پر چینی کی ایک کلو قیمت 98 روپے مقرر کی گئی اس کا باقاعدہ نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا اس پر صرف کچھ مدت تک عمل ہوا اس کے بعد شوگر مل مالکان نے قیمت پر اعتراض کیا اور عدالت سے رجوع کیا اور حکم امتناعی لیلیا جس کے بعد ملک میں چینی کی قیمتوں میں اضافہ شروع ہو گیا اور اب تک لوگ ایک کلو چینی 140 سے 150 روپے میں خرید رہے
ہیں۔میں نے اس مرتبہ بھی گنے کی کرشنگ کے موقع پر چینی کی صورتحال پر معلومات حاصل کرنی شروع کیں جن کی روشنی میں آگاہی ہوئی کہ شوگر ملیں کہہ رہی ہیں کہ اس سال شوگر ملوں کو گنا کم مل رہا ہے کچھ ملیں کین لیس بھی ہوئی ہیں ابھی واضح طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے لیکن اگر چینی کی پیداوار طلب کے برابر یا طلب سے کچھ کم ہوئی تو چینی کی قیمت میں اضافہ ہو گا اور اسکی قیمت 150 روپے کلو سے بڑھ سکتی ہے ۔ میں نے کسانوں سے بھی رابطہ کیا ہے انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں گنے کی کاشت کم رقبے پر ہوئی ہے اور اس وقت کسانوں نے ملوں کو گنے کی سپلائی روکی ہوئی ہے ملیں 350 روپے من قیمت بھی نہیں لگا رہی ہیں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کم از کم گنے کی قیمت گزشتہ سال کے برابر 400 روپے تو ادا کریں ہماری ڈیمانڈ تو 500 روپے فی من تھی۔ ان معلومات سے ایک چیز تو واضح ہو گئی ہے کہ گنے کی پیداوار کم ہوئی ہے گزشتہ سال کے مقابلے میں اس لئے اگر طلب کے برابر بھی چینی پیدا ہوتی ہے تو چینی کی قیمت بڑھانے کے لے کوششیں ضرور ہو گی ان دنوں بھی چینی کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔ملک میں ہر سال کسی نہ کسی وجہ کو بنیاد بنا کر عوام کو ذائد قیمتوں پر چینی کی فروخت کی جاتی ہے اس مرتبہ دیکھتے یں کہ عوام کو چینی کس قیمت پر ملے گی۔اس وقت عوام ایک کلو چینی 180 روپے سے 200 روپے میں خریدنے پر مجبور ہے۔ اگر اعداد شمار یا قیمت کے کم یا ذیادہ ہونے پر کسی کو شکوہ شکایت ہو تو معذرت خواہ ہوں عموی صورتحال کی مجمعوعی سچویشن کی نشاندہی قوم کے اجتماعی مفاد کو مد نظر رکھ کی ہے وزیراعظم اور متعلقہ اداروں سے درخواست ہے کہ اس مسئلے کا مستقل حل تلاش کیا جائے مل ملکان کا کہنا یہ ہے کہ جب چینی میں نقصان ہوتا ہے تو حکومت ساتھ کھڑی نہین ہوتی مہنگی پیداواری لاگت اور گذشتہ سال میں بلند تریں شرع سود نے کاروبار کو بہت شدت سے نقصان پہنچایا ہے اس لیے اکثر ملیں مشکلات کا شکار رہی ہیں درست شفاف تحقیقات اور منصفانہ طریقہ کاروبار ہی اس مشکل سے قوم کو نکال سکتا ہے اصولی طور پہ تو حکومت جس پروڈکٹ کی سپلائی مقرہ نرخوں پر نہ کر سکے حکومت کو اس کے نرخ مقر ر کرنے کا سپلائی ڈیمانڈ کے اوپر ہونا چاہیے یہی عین انصاف ہے حکومت اگر چینی کے نرخ مقرر کرنا چاہتی ہے تو تخمینہ کے مطابق اخراجات کو بھی کنٹرول کرنے کی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے۔