''ہم خود تمہارے پاس آئیں گے''

رات دیر سے سونا، تاخیر سے اٹھنا، وہی مخصوص طرزِ زندگی، طبیعت میں بے زارگی، سوچا کہ اپنی ٹیوننگ کا انتظام کیا جائے۔ چنانچہ بابا جی کو فون کیا حاضری کی اجازت چاہی اگلی صبح گیارہ بجے جب حاضر ہوا تو حسبِ معمول 15/20 عقیدت مند بیٹھے تھے۔ دیکھتے ہی گرمجوشی سے بازو کھولے اور سینے سے لگا لیا، بالکل ساتھ بٹھایا۔ چائے کیلئے خادم کو کہا، بیگم بچوں کی خیریت دریافت کی، کچھ دیر اِدھر ادھر کی باتیں ہوئیں اور پھر سب کو مخاطب ہو کر کہا کہ آپ لوگوں نے حضرت امام غزالی کا نام ضرور سنا ہو گا جو اپنے وقت ولی اللہ تھے۔ اگر آپ ان کے اور ان کے بھائی احمد غزالی کی زندگی بارے پڑھیں اور مشاہدہ کریں تو ان کے پیچھے ان کی ماں کا کردار نظر آئے گا۔ یہ اپنے لڑکپن کے زمانہ میں یتیم ہو گئے تھے۔ ان دونوں کی تربیت ان کی والدہ محترمہ نے کی اور  عجیب بات لکھی کہ ماں نے ان کی اتنی اچھی تربیت کی وہ عالم بن گئے مگر  بھائیوں کی طبیعتوں میں کافی فرق تھا۔ امام غزالی اپنے وقت کے بڑے واعظ خطیب اور امام مسجد تھے۔ ان کے بھائی بھی عالم تھے اور نیک بھی لیکن وہ مسجد میں نماز پڑھنے کے بجائے تخلیے میں نماز پڑھنے کو ترجیح دیتے۔ ایک مرتبہ امام غزالی نے اپنی والدہ سے کہا، امی جان لوگ مجھ پر اعتراض کرتے ہیں کہ تو اتنا بڑا خطیب اور مسجد کا امام ہے مگر تیرا بھائی تیرے پیچھے نماز نہیں پڑھتا، امی جان آپ بھائی سے کہیں، وہ مسجد آیا کرے۔ ماں نے نصیحت کی، چنانچہ اگلی نماز کا وقت آیا۔ امام غزالی نماز پڑھنے لگے تو بھائی بھی شامل ہو گئے اور نیت باندھ لی، لیکن ایک کے بعد دوسری رکعت شروع ہوئی تو بھائی  نماز توڑ کر جماعت سے باہر نکل آئے۔ اب جب امام غزالی نے نماز مکمل کی تو ان کو بڑی سبکی محسوس ہوئی، وہ بہت زیادہ پریشان ہوئے۔ لہذا مفہوم دل کے ساتھ گھر واپس لوٹے۔ ماں نے پوچھا بیٹا بڑے پریشان نظر آتے ہو کہنے لگے امی جان بھائی نہ جاتا تو زیادہ بہتر رہتا۔ یہ گیا اور ایک رکعت پڑھنے کے بعد دوسری میں واپس آ گیا اور اس نے آ کر الگ نماز پڑھی۔ اس پر ماں نے اس کو بلایا اور پوچھا کہ بیٹا ایسا کیوں کیا؟ چھوٹا بھائی کہنے لگا میں ان کے پیچھے نماز پڑھنے لگا، پہلی رکعت انہوں نے ٹھیک پڑھائی، مگر دوسری رکعت میں اللہ کی طرف دھیان کے بجائے ان کا دھیان کسی اور جگہ تھا اس لیے میں نے ان کے پیچھے نماز چھوڑ دی اور الگ پڑھ لی۔ ماں نے امام غزالی سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ کہنے لگے امی بالکل ٹھیک ہے میں نماز سے پہلے فقہ کی ایک کتاب پڑھ رہا تھا اور کچھ مسائل تھے جن پر غور و حوض کر رہا تھا جب نماز شروع ہوئی تو پہلی رکعت میں میری توجہ علی اللہ میں گزری۔ لیکن دوسری رکعت میں وہی نفسانی مسائل ذہن میں آنے لگے ان میں تھوڑی دیر کے لیے ذہن دوسری طرف متوجہ ہو گیا اس لیے مجھ سے یہ غلطی ہوئی، تو ماں نے ایک ٹھنڈا سانس لیا اور کہا افسوس کہ تم دونوں میں سے کوئی بھی میرے کام کا نہ بنا۔ یہ جواب سن کر دونوں بھائی پریشان ہوئے۔ امام غزالی نے معافی مانگ لی امی مجھ سے غلطی ہو گئی مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئیے تھا مگر دوسرا بھائی پوچھنے لگا، امی مجھے تو کشف ہوا تھا، اس لیے کشف کی وجہ سے میں نے نماز توڑ دی، تو میں آپ کے کام کا کیوں نہ بنا؟ ماں نے جواب دیا تم میں سے ایک تو  مسائل  کی بابت کھڑا سوچ رہا تھا اور دوسرا پیچھے کھڑا اس کے دل کو دیکھ رہا تھا۔ تم دونوں اللہ کی طرف تو متوجہ ہی نہ تھے۔ لہذ ا تم دونوں میرے کام کے نہ ہوئے۔ یہ تھا ایک ماں کی تربیت کا اثر کہ  بچے اتنے نیک اور پرہیزگار کہ صدیاں گزر گئیں ان کے نام اور کام آج بھی جانا جاتا ہے۔ بابا جی نے لنگر لگانے کا اشارہ دیا اور حاضرین سے پوچھا کہ بات سمجھ میں آئی! پہلو بدلا اور فرمانے لگے اب ایک قصہ مزید سنیں۔ ایک عابد نے خدا کی زیارت  (دیدار و ملاقات )کے لیے 40 دن کا چلہ کھینچا۔ دن کو روزہ رکھتا اور رات کو قیام کرتا۔ اعتکاف کی وجہ سے مخلوق سے کٹا ہوا تھا اس کا سارا وقت آہ و زاری میں گزرتا۔ ایک رات  عابد نے غیبی آواز سنی کہ شام کو تانبے کے بازار میں فلاں تانبہ ساز کی دکان پر پہنچ جائو۔ عابد وقتِ مقررہ سے پہلے پہنچ گیا اور تانبہ ساز کی اس دکان کو ڈھونڈنے لگا۔ کہتا ہے میں نے ایک بوڑھی عورت کو دیکھا جو تانبے کی دیگچی پکڑے ہر تانبہ ساز کو دکھا رہی تھی، وہ اسے بیچنا چاہتی تھی۔ جس کو دیچگی دکھاتی وہ اسے تول کر کہتا 4 ریال ملیں گے، بڑھیا کہتی چھ ریال میں بیچوں گی مگر کوئی اسے چار ریال سے زیادہ دینے کو تیار نہ تھا۔ آخر کار بڑھیا ایک اور تانبہ ساز کے پاس پہنچی اور کہا میں یہ برتن بیچنے کے لیے لائی ہوں اور اسے 6ریال میں بیچوں گی، کیا آپ 6 ریال دو گے؟ تانبہ ساز نے پوچھا صرف 6 ریال میں کیوں؟بڑھیا نے دل کی بات بتاتے ہوئے کہا میرا بیٹا بیمار ہے، ڈاکٹر نے اس کے لیے نسخہ لکھا ہے جس کی قیمت 6 ریال ہے۔ تانبہ ساز نے دیچگی لے کر کہا ماں یہ دیچگی بہت عمدہ اور قیمتی ہے اگر آپ بیچنا ہی چاہتی ہیں تو میں اسے 25ریال میں خریدوں گا۔ بوڑھی عورت نے کہا تم میرا مذاق اڑا  رہے ہو!!! کہا ہر گز نہیں ''میں واقع ہی  25 ریال دوں گا''، یہ کہہ کر اس نے برتن لیا اور بڑھیا کے ہاتھ پر 25 رکھ دئیے، وہ بڑی حیران ہوئی اور دعا دیتی جلدی سے رخصت ہو گئی۔ عابد کہتاہے میں یہ سارا ماجرہ دیکھ رہا تھا۔ جب بڑھیا چلی گئی تو میں نے تانبہ ساز سے کہا، لگتا ہے چچا آپ کو کاروبار  کرنا نہیں آتا۔ بازار میں سارے تانبے والے اس دیچگی کو تولتے تھے اور 4 ریال سے زیادہ کسی نے اس کی قیمت نہیں لگائی جب کہ آپ نے اس کو 25 ریال دے دئیے۔ بوڑھے تانبہ ساز نے کہا میں نے برتن نہیں خریدا میں نے اس کے بچے کا نسخہ خریدنے کے لیے اسے پیسے دئیے ہیں۔ میں نے ایک ہفتے تک اس کے بیمار بچے کو دیکھ بھال کے لیے پیسے دئیے ہیں میں نے اسے اس لیے یہ قیمت دی ہے کہ گھر کا باقی سامان بیچنے کی نوبت نہ آئے عابد کہتا ہے میں سوچتا اور اس کو دیکھتا رہ گیا۔ اتنے میں غیب سے آواز آئی ''چلہ کشی سے کوئی میری زیارت کا شرف حاصل نہیں کر سکتا۔گرتے ہوئے کو تھامو اور غریب کا ہاتھ پکڑو ہم خود تمہارے پاس آئیں گے'' لنگر تیار تھا۔ خوب لطف اندوز ہوئے۔ رخصتی سے قبل بابا جی نے ایک بار پھر چائے پلوائی۔ کچھ دیر تخلیہ میں گپ شپ ہوئی۔ اور اس دعا کے ساتھ  ''اللہ کریم ہمیں سمجھ اور خلوصِ نیتی کے ساتھ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، بھلائی کا آغاز اپنے اِردگرد کے مستحقین سے کرنے کی توفیق دے۔ اللہ تعالی ہم سب کی مشکلیں آسان کر دے اور اپنے حبیب کے صدقے خصوصی رحمتیں نازل فرمائے'' آمین

ای پیپر دی نیشن