وزیراعظم محمد شہبازشریف نے انسانی سمگلنگ کا کالا دھندہ ملک سے مکمل طور پر ختم کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ انہوں نے گزشتہ روز ایف آئی اے اور انٹیلی جنس بیورو کے افسران و اہلکاروں سے ملاقات کرکے انسانی سمگلنگ میں ملوث گروہ کے سرغنہ کی گرفتاری پر انکی کارکردگی کو سراہا اور اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے افسران کو دس دس لاکھ روپے انعام اور شیلڈز بھی دیں۔ انہوں نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ انسانی سمگلنگ میں ملوث افراد کئی بے گناہ لوگوں کی جانیں ضائع ہونے کے ذمہ دار ہیں‘ اس مکروہ عمل کے باعث کئی لوگ ڈوبے اور اپنی زندگیاں گنوا بیٹھے۔ انسانی جانوں پر اس سے بڑا ظلم اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ انسانی سمگلروں کے گینگ کو گرفتار کرنا لائق تحسین ہے۔ اس گھنائونے جرم کے مرتکب عناصر کی سرکوبی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ کالے دھندے میں ملوث افراد نے پاکستان کے تشخص کو ٹھیس پہنچائی ہے اور انکے مکروہ دھندے سے پاکستان کی دنیا میں بدنامی ہوئی ہے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان کا نام عالمی سطح پر بلند کرنے کیلئے ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے کالا دھندہ کرنے والے عناصر انتظامی سطح پر گورننس کی کمزوریوں اور ڈھیل کی وجہ سے اور قانون کی عملداری کمزور ہونے کے باعث اپنے جرائم کی سزائوں سے بچ جاتے رہے ہیں جبکہ قانون کی گرفت کمزور ہونے کے باعث ان عناصر کے حوصلے مزید بلند ہوتے ہیں۔ انسانی سمگلنگ کا مکروہ دھندہ تو 70ء کی دہائی سے جاری ہے جب اس وقت کے عام طبقات میں اپنے اقتصادی مسائل کے باعث روزگار کے حصول کیلئے ملک سے باہر جانے کا رجحان پیدا ہوا۔ اسی وجہ سے مجبور عوام کو ناجائز طریقے سے ملک سے باہر بھجوانے والے گروہ سرگرم ہوئے تاہم اس وقت ترک وطن کرنے والے افراد کی تعداد کم تھی جبکہ عوام کے اقتصادی حالات جیسے جیسے گھمبیر ہوتے رہے اور ملک میں روزگار اور چھوٹے موٹے کاروبار کے مواقع بھی کم ہونے لگے تو بالخصوص بے روزگار نوجوانوں میں جائز ناجائز طریقے سے ملک سے باہر جانے کا رجحان بڑھنے لگا جو اپنے والدین کی جمع پونجی، زمینیں اور مویشی ڈنگر تک بیچ کر ملک سے باہر جانے کی خاطر انسانی سمگلروں کے ہتھے چڑھتے رہے۔ اس وقت ایک اندازے کے مطابق لاکھوں افراد جیسے تیسے بیرون ملک منتقل ہونے کی کوشش میں ہیں جن کیلئے جائز طریقے سے ملک سے باہر جانا ناممکن ہوتا ہے تو وہ انسانی سمگلروں کے ہتھے چڑھ کر اپنی جمع پونجی ہی نہیں‘ اپنی زندگیاں بھی دائو پر لگا دیتے ہیں۔ انسانی سمگلر انہیں ملک سے باہر اچھی ملازمتیں دلوانے کا جھانسہ دیکر ورغلاتے ہیں اور پھر انہیں کشتیوں میں سوار کرکے موت کے سفر کی جانب روانہ کر دیتے ہیں۔ کئی واقعات ایسے بھی رپورٹ ہوئے کہ اس مکروہ دھندے میں ملوث لوگوں نے ان مجبور انسانوں کو خود کشتیوں اور لانچوں میں قتل کیا اور انکی لاشیں سمندر میں پھینک دیں۔ اب حکومت اس کالے دھندھے کے تدارک کیلئے متحرک ہوئی ہے اور وزیراعظم شہبازشریف نے انسانی سمگلروں کے قلع قمع کا عزم باندھا ہے تو انہیں ملک کے ان حالات کی بہتری کا بھی سوچنا چاہیے جن کے باعث لوگ بے روزگاری اور دوسرے اقتصادی مسائل سے عاجز آکر ترک وطن پر مجبور ہوتے ہیں۔ ملک کے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت بہرحال ریاست کی ہی ذمہ داری ہے۔