لاہور (خبر نگار) چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ عالیہ نیلم پر مشتمل تین رکنی بینچ نے اینٹی ریپ ایکٹ پر عمل درآمد کیس میں آئندہ سماعت پراٹارنی جنرل، وائس چیئرمین و سیکرٹری پنجاب بار کونسل کو طلب کر لیا۔ عدالت نے انسداد جنسی زیادتی ایکٹ کو ضابطہ فوجداری کے مطابق ہم آہنگ کرنے‘ زیادتی مقدمات میں میڈیکل پرفارما میں اینٹریز مزید بہتر کرنے کی ہدایت کردی۔ عدالت نے اینٹی ریپ ایکٹ کی بابت وفاقی حکومت کو خط لکھنے پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بلیغ الزمان پر اظہار برہمی کیا۔ عدالت نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا جو رائے آپ وفاقی حکومت سے لینا چاہ رہے ہیں ہو سکتا ہے کہ ہماری رائے اس سے مختلف ہو، ایکٹ کی جس دفعہ کی بابت آپ نے وفاقی حکومت کو خط لکھا وہ عدالتی فیصلے سے بھی تشریح ہو سکتا تھا، بظاہر ایسے لگتا ہے کہ آپ پوری قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کے لیے آئے ہیں، یہ مسئلہ پوری قوم کا ہے صرف کسی ایک شخص کا نہیں، یہ انتہائی اہم معاملہ ہے، اٹارنی جنرل کو آنا چاہئے تھا،2021 میں قانون بنا لیکن اس میں ابھی بہت خامیاں ہیں، کیا آپ کو بتایا نہیں گیا کہ ایڈووکیٹ جنرل نے اپنی بحث مکمل کرلی ہے؟۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ مجھے نہیں بتایا گیا۔ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے موقف اپنایا کہ پانچ ہزار اغوا، سات ہزار عزت کے نام پر قتل اور دیگر کیسز بھی ہیں، ہمارا تفتیشی موقع پر جا کر رپورٹ مرتب کرتا ہے، تحقیقات کیلئے اہلکار بھرتی کئے ان کی ٹریننگ کی جارہی ہے، اس قانون پر عملدرآمد کیلئے اپنے اہلکاروں، افسروں کی بھی ٹریننگ کرا رہے ہیں، کچھ چیزوں کی کابینہ نے منظوری دینی ہے، خواتین کے تحفظ کے لیے وومن پولیس سٹیشنز کی استعداد کار کو بڑھا رہے ہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ سال 2021ء کے قانون پر سال 2025ء میں بھی عمل نہیں ہورہا اس کا ذمہ دار کون ہے؟۔ اگر عدالت اس کانوٹس نہ لے تو اگلے دس سال تک بھی عمل درآمد نہیں ہونا۔