لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کا نیاسفر

لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی (ایل ڈبلیو ایم سی) لاہور کے شہریوں کو صفائی کی مثالی سہولیات فراہم کرنے کیلئے پر عزم ہے ۔ لاہور ،دو کروڑ سے زیادہ آبادی پر مشتمل شہر ہے جہاں ایک شخص روزانہ کی بنیاد پر تقریبا 1.5 کلوگرام ویسٹ پیدا کرتا ہے۔ ایل ڈبلیو ایم سی کو صوبائی دارالحکومت میں ایک مربوط سالڈ ویسٹ مینجمنٹ سسٹم (ایس ڈبلیو ایم) متعارف کروانے کے لئے قائم کیا گیا تھا ۔ اس ضمن میں 7سال کی مدت کے لیے دو ترک کمپنیوں کی خدمات حاصل کی گئیں۔ ملک امجد علی نون کو 30 ستمبر 2020 کو ،ایک ناکام کمپنی کو دوبارہ فعال کرنے کے مینڈیٹ کے ساتھ ، ایل ای ڈبلیو ایم سی کا چیئرمین تعینات کیا گیا تھاحالانکہ وہ بطور چیئرمین ایل ڈبلیو ایم سی نہیں آنا چاہتے تھے کیونکہ اس سے پہلے وہ کئی اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔چیئرمین وزیراعظم معائنہ کمیشن کے طور پوری حکومت کے معاملات دیکھے، بطور ضلع ناظم ایک پوراضلع چلایا،چیئر مین سٹیٹ سیمنٹ کارپوریشن آف پاکستان میں گریڈ 22 کے عہدے کی ذمہ داری سنبھالی اور اس کے علاوہ سب سے کم عمر سفیر کے طور پر پاکستان کی نمائندگی بھی کر چکے ہیں۔جب انہوں نے بطور چیئرمین ایل ڈبلیو ایم سی کاچارج سنبھالا تو کمپنی کی صورتحال نہایت ابتر تھی ۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے نہایت اصرار پر ایل ڈبلیو ایم سی کو مسائل سے نکالنے کے لئے اور صورتحال میں بہتری لانے کیلئے انہیں اس عہدے پرتعینات کیا گیا ۔جب انہوں نے بطور چیئرمین ذمہ داری سنبھالی تو شہر لاہور کی سڑکوں پر تقریبا0ََ2500 ٹن کوڑا موجود تھا اور لوگ لاہور کو کراچی کی صورتحال سے تشبیہ دے رہے تھے ۔لاہور کو ویسٹ مینجمنٹ بحران کا سامناتھا جو کہ حکومت کو بدنام کرنے کے لئے سیاسی آلے کے طور پر استعمال ہو رہا تھا۔
ایل ڈبلیو ایم سی کی جانب سے عرصہ 7سال کے لیے 2ترک کمپنیوں کی خدمات حاصل کی گئیں تھیں۔ 7 سالہ معاہدے کے بعد 2 سال میں معاہدے میں 4 مرتبہ مزید توسیع کی گئی جس کیلئے پرفارمنس گارنٹی بھی نہیں لی گئی ۔ اس کے علاوہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی اور کمپنیوں کے ساتھ معاہد ے میں بار بار توسیع کے سبب حکومت کو زیادہ لاگت برداشت کرنا پڑی۔دونوں کنٹریکٹرز سے معاہدے کی تکمیل کے بعد خوشگوار انداز میں معاملات کی انجام دہی اور اور متبادل انتظامات کی ذمہ داری نئے چیئرمین ایل ڈبلیو ایم سی کے کندھوں پرآئی۔
آپریشنل معاملات کی منتقلی سے قبل، غیر ملکی ٹھیکیداروں نے طے شدہ خدمات کی فراہمی سے پیچھے ہٹنا شروع کیا تھا اور شہر لاہور کو مفلوج بنانے کی کوشش میں آپریشن کے معیار کو مزید گرا دیا تھا۔ مشینری کو اپ ڈیٹ نہیں کیا گیا تھا اورکچرے کے کنٹینر / کوڑے دان خستہ حالت میں تھے اور اصل معاہدے کے مطابق انکی تبدیلی / مرمت نہیں کی گئی۔ ستمبر 2020 میں اور پھر 10 دسمبر 2020 کوترک ٹھیکیداروں نے ہڑتال کی اور لاہور کے شہریوں کو ماحولیاتی آلودگی کا سامنا کرنا پڑا۔ ترکی کے ٹھیکیداروں کی ان ناخوشگوار اور استحصالی کارروائیوں سے دوممالک کے مابین تعلقات خراب ہونے کا خطرہ تھا۔ ایسی صورتحال میں ایل ڈبلیو ایم سی نے اپنے وسائل کی مدد سے شہر کی صفائی کو ممکن بنایا اور آئندہ کا لائحہ عمل بھی مرتب کیا۔ترک کنٹریکٹرز کو توسیع نہ دینا ،چیئرمین صاحب کے لئے بلاشبہ ایک مشکل فیصلہ تھا کیونکہ اس مسئلے کو ڈپلومیٹک طریقے سے حل کرنا تھا ۔اس مقصد کیلئے انہوں نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور اور انقرہ(ترکی) میں پاکستانی سفیر سے بھی رابطے کئے ۔ملک امجد علی نون کی بھر پور سفارتی کاوشوں کے سبب ترک فرموں کے ساتھ معاہدے کی مثبت انداز میں تکمیل ممکن ہو سکی۔ترک کمپنیوں کا منصوبہ تھا کہ وہ تمام مشینری بیچ دیں گے اس وجہ سے چیئرمین نے 21 دسمبر 2020 کو لاہور کی انتظامیہ اور ایل ڈبلیو ایم سی کی ٹیم کے ہمراہ تمام مشینری لے کر لاہور کی صفائی مہم شروع کر دی اور چیئرمین سمیت تمام ٹیم نے متواتر 48 گھنٹے کام کیا اور شہر کو کافی حد تک صاف کر لیا۔چیئرمین ایل ڈبلیو ایم سی نے ملک کے بہترین مفاد میں یہ ذمہ داری قبول کی۔ اگر بین الاقوامی معاہدے کو ختم کرنے کامشکل فیصلہ نہ لیا جاتا تو ایل ڈبلیو ایم سی کو غیرقانونی توسیع کے ساتھ ساتھ 5 ارب روپے بھی ادا کرنا پڑتے۔بعد ازاں ترک کمپنیوں نے لاہور ہائی کورٹ سے سٹے لے لیا اور پھر 2 جنوری 2021 کو ایل ڈبلیو ایم سی کی جانب سے سٹے ختم کروا لیا گیا،اس کا م کے عوض وکیل 2 کروڑ روپے مانگ رہے تھے لیکن کمپنی کے لیگل کونسل وکیل سے کروا نے کے بروقت فیصلے نے کروڑوں روپے کی بچت کی ۔2 جنوری 2021 سے ایل ڈبلیو ایم سی نے مکمل طور پر شہر میں صفائی آپریشن سنبھالا اور ہنگامی بنیادوں پر لاہور کی صفائی شروع کر کے صرف 10 دن میں 50,000ٹن کا بیک لاگ کلیئر کر دیا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ترکش کمپنیوں کو جہاں لاہور کی 252 یونین کونسلوں کو سنبھالنے میں سال بھرکا عرصہ لگا تھا وہیں ایل ڈبلیو ایم سی کی ٹیم نے چیئرمین کی قیادت میں ایک ہفتے میں سارا نظام سنبھال لیا جس کا سہراایل ڈبلیوایم سی انتظامیہ کے سر جاتاہے۔ اس کے علاوہ ہنگامی بنیادوں پر پیپرا قوانین کے مطابق چالیس روز کیلئے اضافی مشینری کی دستیابی کو یقینی بنایا گیا۔ ترک کمپنیاں جو کوڑا 4700 روپے فی ٹن میں اٹھا رہی تھیں وہی اب 1900 روپے فی ٹن کے حساب سے اٹھایا جا رہا ہے ۔
 وزیراعظم کے ویژن کے مطابق کسی ورکر کو بے روزگار نہیں کیا گیا بلکہ ترک کمپنیوں کے پے رول پر موجود تمام ملازمین کو ایل ڈبلیو ایم سی میں تعینات کیا گیا ۔ تمام دستیاب وسائل، افرادی قوت اور مشینری کی مدد سے، ایل ڈبلیو ایم سی پچھلے تما م کچرے کو کلیئر کر کے صاف ستھرا لاہور کا مشن پورا کرنے میں کامیاب رہی۔ آرگنائزیشن کے اچھے کام کی توثیق کے طور پر، 12 جنوری 2021 کو، وزیر صنعت، تجارت اور سرمایہ کاری میاں اسلم اقبال نے ایل ڈبلیو ایم سی کی مدد کے لئے ہاتھ ملایا۔الحمد للہ اس وقت لاہور صاف ستھرا ہے ۔یہ کہنا بالکل بے جا نہ ہو گا کہ ملک امجد علی نون نے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور قابلیت سے ایک ڈوبتی ہوئی کمپنی کو دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا کر دیا اور اس وقت یہ کمپنی اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھا رہی ہے ۔

ای پیپر دی نیشن