سقوط ڈھاکہ اورآرمی پبلک سکول کے ننھے شہدا

عباس نامہ …عباس ملک
bureauofficeisb@gmail.com

بانی پاکستان سے سوال کیا گیا کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان طویل سمندری راستہ ہے یہ دونوں حصے کیسے یک جان اور یک قالب رہیں گے؟ عظیم قائد نے توقف کے بعد جواب دیا کہ ''دونوں حصوں کو کلمہ طیبہ کی برکتیں' سعادتیں اور سیادتیں متحد رکھیں گی'' یہ وہ پاکستان ہے جس کے لیے دنیا کی سب سے بڑی ہجرت کی گئی، ایک کروڑ سے زائد مظلوم' مجبور اور بے آسرا مسلمان بے سروسامانی کے عالم میں ہندوستان سے آزاد وطن پہنچنے۔ لاہور میں مہاجرین کے قافلوں کا استقبال اور ان کی آباد کاری میں آل انڈیا مسلم لیگ کے کارکنوں اور محبان پاکستان نے جو کردار ادا کیا اس پر رشک واعجاز کے کئی مینار تعمیر کئے۔ 1965 میں بھارت کی جارحیت اور پاکستان پر اچانک حملے کو پاک افواج اور قوم نے جس دلیری اور زندہ دلی سے پسپا کیا وہ قیمتی اور سچے جذبے ہمارا سرمایہ تھے افسوس ہماری آپس کی ناانصافی' ناچاکی اور انتشاری سیاست نے ان جذبوں اور یکجہتی کے دھاگوں کوتوڑ دیا۔ سیاست دانوں کی ایک دوسرے پر ''برتری'' کے خواب نے دشمن کو وار کرنے کا موقع دیا اور پھر بھارت نے اس انتشار اور بے کلی وبے چینی کا پورا فائدہ اٹھایا یوں 1971ءکا روح شکن سانحہ حقیقت بن کر سامنے آگیا!! آج کے مبظر پہ نظر دوڑائیں تو بہت کچھ نوشیہ دیوار کی طرح سامنے آجائے گا… بھارت اور اسرائیل کے ذریعے خطے میں پاکستان چین تعلقات کی گہرائی اور گیرائی کے حوالے سے گوادر سی پیک منصوبے کو اپنے گلوبل مفادات کے خلاف سمجھتا ہے۔ امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں خلیج کے ملکوں کے حکمرانوں پر سیاسی دباﺅ کا حربہ استعمال کرتے ہوئے عرب دنیا کی خواہشات اور اقوام متحدہ کی قرارداوں کیمطابق فلسطین کی خودمختار مملکت کے قیام کو پس پشت ڈالتے ہوئے اِن ملکوں کے اسرائیل کیساتھ سفارتی اور سیاسی تعلقات قائم کرانے میں مگن ہے دوسری جانب چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی قوت جسے پاکستان میں گوادر پورٹ کے حوالے سے سی پیک منصوبے کی کامیاب کاوش کے سبب مکران کوسٹ کے گرم پانیوں تک چین سے لیکر روس اور وسط ایشیائی ممالک تک اقتصادی رسائی کے حصول کے مملکن ہو جانے کے باعث بظاہر امریکی قیادت مشرق وسطیٰ میں اپنے اسٹرٹیجک مفادات کے خلاف سمجھتی ہے…16دسمبر 2014 کی صبح پشاور میں آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس)پر عسکریت پسندوں نے حملہ کردیا اور وہاں موجود طلبہ اور اساتذہ کو نہ صرف یرغمال بنایا بلکہ ان پر فائرنگ کرکے طلبہ سمیت 140سے زائد افراد کو شہید کردیا تھا۔اس واقعے کے بعد پاک فوج کی جانب سے جاری آپریشن ضرب عضب کو مزید تیز کیا گیا تھا اور یہی نہیں بلکہ واقعے کے کچھ دن بعد حکومت نے ملک کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے جامع حکمت عملی کا اعلان کیا تھا۔اس بھیانک واقعہ میں 133 طلباءاپنی زندگی کی بازی ہار گئے تھے جبکہ سٹاف کے 9ارکان بھی جام شہادت نوش کر گئے تھے جن میں ایک خاتون ٹیچر کے علاوہ پرنسپل طاہرہ قاضی بھی شامل تھیں۔ پاک آرمی نے سات دہشتگردوں کو بھی ہلاک کر دیاتھا۔ دہشت گردی کی یہ خبر دوپہر کو جونہی اس دن ٹی وی چینلز پر نشر ہوئی تھی تو پورا ملک سوگوار ہوگیا تھالیکن جن ماﺅں کی گودیں اجڑیں ، جن والدین کے لخت جگر ہمیشہ کیلئے جدا ہوئے جن بہنوں کے بھائی بچھڑے اور جو جو اس جانکنی کے مراحل سے گزرے اس کا دکھ وہی جان سکتے ہیں

ای پیپر دی نیشن