عورت کٹہرے میں

کٹہرے کی مروجہ روایت کے مطابق پہلے اپنا عدالتی بیان ریکارڈ کروانا چاہتی ہوں کہ'' آج جو کچھ کہونگی سچ کہوں گی اور سچ کے سوا کچھ نہیں کہوں گی''۔  
میرا آج  کا کالم کڑوا زہر ہے مگر میں نے اس کالم کے لیے جو تحقیق اور محنت کی ہے مجھے علم ہے کہ میری اس حسنِ کارگردگی پر مجھے پتھر کا تمغہ پہنایا جائے گا۔
یہ مارچ 1857ء کی بات ہے۔  جب نیویارک میں کارخانوں کی کارکن خواتین نے اپنے حقوق اور ملازمت کے شرائط کے بار ے میں احتجاجی جلوس نکالااور حکومتِ وقت کو ان کی بہت سے شرائط کو ماننا پڑا۔ اس وقت سے خواتین کا یہ دن منایا جاتا  ہے، جس میں اب بہت وسعت آ گئی ہے۔  پاکستان میں میری بہنوں نے یہ وسعت ملتے ہی بے وقوفی، بد اخلاقی اور بلا سوچے سمجھے ایک ایسی لنگڑی چھلانگ لگائی ہے جو صرف اندھیرے میں اترتی ہے۔ وہاں حقوق جیسی کوئی چیز نہیں پڑی ہوئی۔
حقوق کے لئے لڑی جانے والی ہر جنگ کو جہاد کہا جاتا ہے۔ اور ایسی جنگ بہت قربانی مانگتی ہے۔ مگر منزل مقصود جلد  یا بدیر سے مل ہی جاتی ہے۔ میری بہنیں تو حصول ِ حقوق کے جنون میں یورپی اور امریکی خواتین کو بھی پیچھے چھوڑ گئی ہیں۔ حلانکہ حقوق کے حصول کی لمبی جنگ  لڑنے کے بعد ان خواتین نے اپنے اعلیٰ کارناموں سے اپنے ملکوں کو ایسی معاشی، جمہوری اور سیاسی ترقی دی ہے، جس سے وہ ملک ترقی کی بلندی کو چھو رہے ہیں۔ ایک امریکی خاتون، Shanon Locid نے اس دن کے حوالے سے کہا ہے کہ جب سے ہمیں حقوق ملے ہیں، ہم نے یہ حقوق اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ اپنے ملک کے لئے استعمال کئے ہیں۔ میں نے 20 سال کی عمر میں خلابازی کا لائسنس حاصل کر لیا تھا اور 3 بچوں کے بعد خلائی مشن اور ناسا کہ درمیان ایک ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر رہی ہوں۔اس سلسلہ میں وہ مزید کہتی ہیں کہ Shally Shaywitz  جو ایک Behavior Scientist  ہیں کہتی ہیں کہ کارگردگی کے لحاظ سے بعض معاملات میں عورت، مرد سے بلند درجہ پر ہے۔ اس کی قوت مدافعت اور قوت برداشت مرد کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہے۔ 
میں عورت کی ملازمت کے خلاف   نہیں ہوں۔ اگر کوئی خاتون کسی بھی ہنر یا قابلیت کی حامل ہے تو اسے ضرور کام کرنا چاہیے۔ مگر کام گھر کے اندر بھی کیا جا سکتا ہے۔ مثلاََ ''میری کیوری'' جو ایک عظیم سائنسدان تھی اس نے اپنے گھر کے  اندر تجرباتی لیباٹری قائم کی ہوئی تھی   اور وہ اپنے شورہ کے ساتھ مل کر اس میں کام کرتی تھی۔ اس طرح اس کا گھر، اس کا شوہر، بچے نظر انداز نہیں ہوتے تھے۔ دوسری سب سے بڑی مثال حضرت خدیجہ ؑ، جو اپنے وقت کی بہت بڑی تاجر تھیں وہ کبھی گھر سے باہر نہیں نکلیں لیکن ان کی تجارت کئی ملکوں تک پھیلی ہوئی تھی۔  لیکن آج کی عورت گھر کو معاشی  سکون دینے کے بہانے  گھر سے باہر نکل آئی ہے۔ اس میں مرد کی سازش بھی شامل ہے جس نے پوری چالاکی سے عورت کو باہر کی ترغیب دی ہے اور سارے فائدے خود حاصل کر لئے ہیں۔ گھر کا چولہا بھی گرم اور دفتر میں ساتھ بیٹھنے والی کارکن ساتھیوں سے آنکھوں کا سیک بھی میسر ہے۔ ایک اور بات جو قابل توجہ ہے، یہاں یورپ میں کارکن خواتین کے چہروں پر ایک خاص کرختگی 
اور بے رونقی ہے۔ ایک دن یورپ کے قیام کے دوران، میں نے ایک عورت کو دکان میں دیکھا، اس نے اپنے نومولود بچے کو ایک سکول بیگ کی طرح کے پاوچ میں گلے سے لٹکایا ہوا تھا۔ مجھ کھوجی نے اس کے قریب جا کر پوچھا۔ آپ اس بچے کے ساتھ شاپنگ کیوں کر رہی ہیں؟ ۔ اس نے بے بسی سے جواب دیا کہ صبح، صبح اس بچے کو بے بی سنٹر میں چھوڑ کر میں خود کام پر چلی جاتی ہوں۔ بس یہی وقت میرے پاس بچتا ہے کہ جب میں اسے اپنے سینے سے لگا سکتی ہوں۔ اگر سوچا جائے تو عورت گھر کی ریاست کی مالک ہے۔ ایک ریاست کے حاکم کا با علم ہونا بہت ضروری ہے۔ تاکہ ریاستی نظام کو بہتر طور پر چلانے پر قاد ر ہو۔ المیہ یہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ ملک کی آدھی آبادی (خواتین) کو بے کار کر کے گھر میں بند کیوں کیا جائے۔ کیا ایک ریاست کے حاکم کے پاس اتنا وقت ہوتا ہے کہ وہ کسی دوسری ریاست میں جھانک سکے۔ گھر کے معاملات شوہر اور بچوں کی ذمہداریاں تو اتنی زیادہ ہیں کہ اگر انہیں ایمانداری اور خلوص کے ساتھ انجام دیا جائے تو ایسی خاتون کے پاس تو وقت ہی نہیں بچتا۔ قناعت بہت بڑی دولت ہے۔ عورت کو اپنی موجودہ پوزیشن پر اطمینا ن ہونا چاہیے  کیونکہ ہم سب کو علم ہے کہ قبل مسیح اور اسلام کے آنے سے پہلے  عورت کے ساتھ کیا  سلوک کیا جاتا تھا۔ 
کیتھولک پادریوں نے ایک میٹنگ بلائی تھی کے خواتین کو بائبل کو ہاتھ لگانے سے روکا جائے۔ جارج ہشتم کے زمانہ میں پادریوں نے ایک فتوہ دیا تھا کہ مرد کی ساری بے راہ روی اور گناہ کی ذمہ دار عورت ہے۔ فرانس میں ایک بل پاس کیا تھا کہ خواتین کو نمبر 2 شہری سمجھا جائے۔ ایک امریکی خاتون نے اپنی کتاب میں کہا ہے کہ اسلام میں مرد، عورت کے حقوق اور عورت کی اہمیت بات، بہت طاقتور انداز سے کی ہے۔ اسلام نے کہا ہے کہ عورت ظعیف البدن ہے لیکن ظعیف القلع نہیں۔ 
پاکستان کی عورت نے جس طرح اپنی اہمیت کو پاؤں تلے کچلا ہے، مارچ کے مہینے میں جو کچھ اس کا عملی ثبوت سامنے آیا ہے وہ بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے۔ اس  ایک خبرنے مجھے حیران اور بے حال کر دیا ہے ۔ ایکOscarآوارڈ یافتہ خاتون شرمین عبید رائے نے اپنے ایک انٹریو میں ارشاد فرمایا ہے کہ میں نے ''پٹاخہ پکچرز '' کے نام سے اپنی خواتین کے لئے ایک پلیٹ فارم بنایا ہے جہاں وہ اپنے سارے خواب پورے کر سکے گی۔ 
آخر میں  میرے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں۔ 
ساری باگیں ہی توڑ دیں ہم نے
جانے کون اب مہار لائے گا
اک قیامت سی ارد گرد میں ہے
یہ ترقی نہیں تباہی ہے
نگہت لغاری (جرمنی)
8-مارچ-2025

ای پیپر دی نیشن