سفینہ سلیم
انسانی وجود کے اندر سب سے نازک، پیچیدہ اور طاقتور چیز اگر کوئی ہے تو وہ ہے ’’احساسات‘‘۔ یہ وہ نادیدہ شعلہ ہے جو ہمارے اندر جلتا ہے، جو لفظوں سے کہیں پہلے جنم لیتا ہے اور اکثر لفظوں سے کہیں آگے نکل جاتا ہے۔
انسان بنیادی طور پر جذباتی مخلوق ہے۔ اس کی سوچ، فیصلے، اور رویے اکثر احساسات کی بنیاد پر تشکیل پاتے ہیں۔ لیکن جب یہ نازک جذبات ایک پیچیدہ معاشرتی نظام سے ٹکراتے ہیں، تو ایک گہری کشمکش جنم لیتی ہے جو اکثر خاموش، مگر نہایت تکلیف دہ ہوتی ہے۔
خوشی، غم، محبت، نفرت، خوف، امید، حسرت، رشک یہ سب محض الفاظ نہیں، بلکہ ایک جہانِ باطن کی ترجمانی ہیں، جو ہماری روح کی گہرائیوں سے ابھرتی ہے۔
احساسات انسان کو مشین سے الگ کرتے ہیں۔ ہم کسی کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر بے چین ہو جاتے ہیں، کسی کی مسکراہٹ ہمیں راحت دیتی ہے، کسی کے دکھ کو محسوس کرنا ہماری اپنی تکلیف بن جاتا ہے۔ یہ سب کچھ ہمیں سکھایا نہیں جاتا، یہ ہماری فطرت میں موجود ہوتا ہے۔ یہ احساس ہی ہے جو ہمیں کسی اجنبی کی مدد پر مجبور کرتا ہے، جو ہمیں اپنے پیاروں کی فکر میں بے سکون رکھتا ہے، اور جو ہمیں خود اپنی ذات سے آگے دیکھنے کا ہنر دیتا ہے۔
معاشرتی اقدار، روایات، اور توقعات ایک ایسا فریم ورک ہیں جن میں ہر فرد کو ’’فٹ‘‘ ہونا پڑتا ہے۔ اگر کسی کے احساسات اس فریم ورک سے مطابقت نہ رکھتے ہوں، تو وہ فرد معاشرتی دباؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، ایک نوجوان اپنی مرضی کا شعبہ اپنانا چاہتا ہے، لیکن خاندان کی توقعات اسے روک دیتی ہیں۔ ایک لڑکی محبت میں سچائی محسوس کرتی ہے، مگر سماجی بندھن اسے اظہار کی اجازت نہیں دیتے۔ اس قسم کے ٹکرائوآہستہ آہستہ اندرونی اضطراب، احساسِ کمتری، اور بے سکونی میں بدل جاتے ہیں۔
معاشرتی الجھنیں صرف ظاہری مسائل پیدا نہیں کرتیں، بلکہ دل و دماغ کی اندرونی دنیا کو بھی زہر آلود کرتی ہیں۔ ایک شخص جو باہر سے ہنستا ہے، وہ اندر سے ٹوٹ رہا ہوتا ہے۔ بلکہ جذباتی طوروہ کء محاظ پراکیلالڑرہاہوتاہے۔
مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ آج کا انسان اپنے جذبات سے کٹتا جا رہا ہے۔ ہم احساسات کو کمزوری سمجھنے لگے ہیں۔ ہم رو پڑنے کو شرمندگی، اور کسی سے وابستگی کو پچھتاوا سمجھنے لگے ہیں۔ معاشرتی دباؤ، مصنوعی رشتے، اور تیزرفتار زندگی نے ہمیں جذبات سے دور کر دیا ہے۔ ہم جذبات کو ’’پراسیس‘‘ کرنے کے بجائے ’’دبانے‘‘ لگے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آہستہ آہستہ ’’محض وجود‘‘ بننے لگے ہیں بغیر روح، بغیر جذبیاوراحساسات کے صرف مٹی کے پتلے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم واقعی جینا چاہتے ہیں یا صرف چلتے رہنا؟ کیا ہم نے کبھی اپنے دل کی سننے کی کوشش کی ہے؟ ہم دوسروں کے دکھ کو محسوس کرتے ہیں، لیکن کیا ہم خود کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں؟ کیا ہم جانتے ہیں کہ ہمارے اندر کتنے ان کہے جذبات دفن ہیں جو کبھی سنے ہی نہیں گئے؟ ہم کیاکرناچاہتے تھے کیاکربیٹھے ہیں اورمزیدکیاکرنابہترہوگا؟
احساسات کمزور نہیں کرتے، بلکہ گہرائی بخشتے ہیں۔ جو انسان اپنے جذبات سے جڑ جاتا ہے، وہی اصل میں خود کو پہچانتا ہے۔ اور جو خود کو پہچان لے، وہ دنیا کو بہتر سمجھنے کے قابل ہو جاتا ہے۔مگربدقسمتی سے، ہمارا تعلیمی اور خاندانی نظام بھی احساسات کی تربیت سے خالی ہے۔ ہم بچوں کو سائنس، ریاضی اور زبان تو سکھاتے ہیں، لیکن جذبات کو پہچاننا، ان کا اظہار کرنا، اور دوسروں کے احساسات کو سمجھنا نہیں سکھاتے۔بلکہ ایسا سیکھا نیک و بدتہذیبی اوربے حیائی سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جیسے جیسے بچے بڑے ہوتے ہیں، وہ جذباتی طور پر اُلجھے رہتے ہیں، کیونکہ ان کے اندر جو محسوس کرنے کی صلاحیت فطری طور پر موجود ہوتی ہے، وہ اسے معاشرتی طور پر ’’نامناسب‘‘ سمجھنے لگتے ہیں۔ نتیجتاً، وہ خود سے بیگانہ ہو جاتے ہیں ایک ایسا انسان جس کا دل بھرا ہوا ہوتا ہے، مگر زبان خاموش ہوتی ہے۔
معاشرتی اُلجھنیں صرف انفرادی زندگی کو ہی متاثر نہیں کرتیں، بلکہ رشتوں میں دراڑیں ڈالتی ہیں، خاندانی نظام کو کھوکھلا کرتی ہیں، اور ایک بیحس معاشرہ تشکیل دیتی ہیں۔ جب انسان دوسروں کے جذبات کو نظر انداز کرنا سیکھ لیتا ہے، تو رفتہ رفتہ خود اپنی انسانی قدر بھی کھو بیٹھتا ہے۔ ہمیں ایک ایسے سماج کی ضرورت ہے جو احساسات کو کمزوری نہیں، طاقت سمجھے۔ جہاں اظہارِ جذبات کو شرمندگی نہیں، ہمدردی کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ ایسا معاشرہ ہی حقیقی معنوں میں صحتمند، مربوط اور انسان دوست ہو سکتا ہے۔
ایک لمحہ کو اپنے اندر جھانکیں۔ اپنے جذبات کو سنیں، سمجھیں، اور جینے دیں۔ شاید اسی میں وہ سکون چھپا ہے جس کی ہمیں مدتوں سے تلاش ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم احساسات کو جینے کی اجازت دیں۔ تاکہ جذباتی سچائی کو کمزوری نہ سمجھا جائے، بلکہ انسانی وقار کا حصہ مانا جائے۔ ہمیں یہ سیکھنا ہوگا کہ ہر شخص اپنی جذباتی دنیا کا مسافر ہے، اور ہمیں ایک دوسرے کے اس سفر میں ہمسفر بننا چاہیے، جج نہیں۔