بلوچستان، وہی سرزمین جہاں کی سنگلاخ چٹانوں نے صدیوں سے سورج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال رکھی ہیں، جہاں کی ہواؤں میں تاریخ کی صدائیں آج بھی گردش کرتی ہیں، جہاں کے ریگزاروں میں وقت کی سلگتی ہوئی سانسیں دفن ہیں۔ یہی وہ خطہ ہے جس کی مٹی میں شہیدوں کا لہو رچ بس چکا ہے، اور یہی وہ دھرتی ہے جس پر ایک بار پھر شب گزیدہ درندوں نے خون کی ہولی کھیلی۔ ٹرین، جو صدیوں کی مسافت کا نشان بنی، جو انسانی تمدن کا گواہ تھی، جس کی پٹڑیاں صدیوں کے قصے سناتی تھیں، آج وحشت و بربریت کی بھینٹ چڑھ گئی۔ وہ مسافر، جو امیدوں کے چراغ جلائے، زندگی کی نگری میں اپنے خوابوں کے تعاقب میں رواں دواں تھے، آج خون میں نہلادیے گئے۔ وہ ہاتھ، جو اپنے پیاروں کی جانب بڑھ رہے تھے، آج کٹی پھٹی بوگیوں کے ملبے میں دم توڑ گئے۔ یہ کوئی عام حادثہ نہیں، کوئی معمولی سانحہ نہیں، بلکہ یہ ایک وحشت ناک چیخ ہے، جو صدیوں کے سناٹوں کو چیرتی ہوئی آسمانوں تک جا پہنچی ہے۔ یہ وہ المیہ ہے جس کے آنسو وقت کی آنکھ سے ٹپک رہے ہیں، یہ وہ سسکیاں ہیں جو تاریخ کے سینے میں دفن کی جا رہی ہیں۔ بلوچستان، وہی سرزمین جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہاں چاندنی بھی سازشوں کی گواہ بن کر اترتی ہے، ایک بار پھر درندہ صفت قوتوں کی سازشوں کا شکار ہوگیا۔ یہ خون کی لکیر جو ریل کی پٹڑیوں پر کھنچ گئی ہے، یہ چیخیں جو فضا میں تحلیل ہو چکی ہیں، یہ آہیں جو زمین میں دفن ہوگئیں، ان کے پیچھے وہی سفاک قوتیں ہیں جو صدیوں سے اس دھرتی کو لہو رنگ کرنے کے درپے ہیں۔ دشمن نے پھر اپنی زہرآلود بساط بچھائی، پھر اپنے مہرے آگے بڑھائے، پھر وحشت کے نقارے بجائے، پھر خون کی ندیاں بہائیں۔ یہ سازشیں کوئی نئی نہیں، یہ وہی پرانی زنجیریں ہیں جو کبھی بیرونی آقاؤں کے ہاتھ میں تھیں، کبھی نام نہاد آزادی کے نعرے لگانے والوں کے قبضے میں، اور آج پھر وہی سامراجی عفریت اپنی شکل بدل کر بلوچستان کی بقا پر وار کر رہا ہے۔یہ جو ریلوے کی پٹڑیوں پرمعصوم لہو بہہ گیا، یہ جو جلتی بوگیوں میں خواب جل کر راکھ ہو گئے، ان کے پیچھے وہی منحوس سائے ہیں جو افغانستان کے کوہساروں سے جھانکتے ہیں، جو نئی دہلی کے ایوانوں میں بیٹھ کر سازشیں بنتے ہیں، جو کلبھوشن کی آنکھوں میں چھپی سفاکی میں نظر آتے ہیں۔ بھارت کی خفیہ ایجنسی ’را‘ کا ماضی کوئی سربستہ راز نہیں، اس کے پنجے بلوچستان کے دل میں پیوست ہو چکے ہیں۔ وہ دہشت کے سوداگر جو کبھی کوہِ سلیمان کی وادیوں میں چھپ کر وار کرتے تھے، آج وہی چہرے نئے نقاب میں ٹرین کی بوگیوں کو قبرستان بنا رہے ہیں۔بلوچستان جسے صدیوں سے جلایا جا رہا ہے، یہ پہاڑ، جو صدیوں سے جلے جا رہے ہیں، یہ صحرا، جو تپتی ریت میں سسک رہے ہیں، یہ دریا، جن کا پانی ہمیشہ خون سے سرخ کیا گیا، آخر کب تک اپنی قسمت کے زندان میں قید رہیں گے؟ بلوچستان، وہی خطہ جو کبھی سلطان محمود غزنوی کے قدموں کی آہٹوں سے گونجا، جو کبھی احمد شاہ ابدالی کے نعر? تکبیر سے لرزا، جو کبھی قائداعظم کے خوابوں کا مرکز بنا، آج پھر اپنی بے بسی پر نوحہ کناں ہے۔ یہ وہی بلوچستان ہے جسے کبھی مذہب کے نام پر بہکایا گیا، کبھی آزادی کے خوشنما نعرے دے کر گمراہ کیا گیا، اور آج پھر ترقی کی راہ میں زہر گھولا جا رہا ہے۔ گوادر، وہی بندرگاہ جسے دنیا کے سب سے بڑے اقتصادی منصوبے سی پیک کا تاج پہنایا گیا، جسے پاکستان کے سنہرے مستقبل کی کنجی کہا گیا، آج اسی گوادر کو اندھیروں میں دھکیلنے کے لیے نئی چالیں چلی جا رہی ہیں۔ دہشت کے سوداگروں کو جواب دینا ہوگا، مگر یہ خون یونہی نہیں بہے گا، یہ آہیں یونہی نہیں دفن ہوں گی، یہ چیخیں صدیوں تک سنائی دیں گی۔ ان دہشت گردوں کو، ان کے آقاؤں کو، ان کے سہولت کاروں کو جواب دینا ہوگا۔ ریاست پاکستان، جس نے ہر وار کا صبر و استقامت سے سامنا کیا، آج پھر ایک نئی آزمائش کے در پر کھڑی ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب ہمیں اپنی صفوں میں چھپے دشمنوں کو پہچاننا ہوگا، جب ہمیں ان سازشوں کے تانے بانے توڑنے ہوں گے، جب ہمیں اس آگ کو بجھانا ہوگا جو دشمن نے ہمارے آنگن میں بھڑکائی ہے۔ بلوچستان کی مٹی انتقام لے گی، یہ وہ مٹی ہے جس نے حاتم طائی جیسے سخی پیدا کیے، جس نے میر چاکر جیسے بہادر سپوت دیے، جس کی گود میں حب الوطنی کی کہانیاں لکھی گئیں۔
یہ کالم ایک فریاد ہے، ایک احتجاج ہے، ایک زخم ہے جو بلوچستان کی سنگلاخ چٹانوں پر تازہ ہوا ہے۔ میں نے الفاظ کے نوکدار پتھروں سے اس دکھ کو تراشنے کی کوشش کی ہے جو ریلوے کی پٹڑیوں پر بکھرے لاشوں کے ساتھ دفن ہونے سے انکاری ہے۔ یہ کوئی عام حادثہ نہیں، بلکہ ایک مسلسل چال ہے جو بلوچستان کو لہو میں نہلانے کے لیے کھیلی جا رہی ہے۔ دشمن وہی پرانے ہیں، چہرے بدلتے رہتے ہیں، مگر عزائم ایک جیسے ہیں، پاکستان کی ترقی کو روکنا، بلوچستان کے امن کو تاراج کرنا، اور گوادر کے اْجالے کو دھندلانا۔ میں نے وہی چیخیں، وہی آہیں، وہی سازشیں الفاظ میں سموئی ہیں جو صدیوں سے یہاں کی ہوا میں تحلیل ہو چکی ہیں۔ یہ کالم لکھتے ہوئے میرا قلم کانپ رہا تھا، میرا ضمیر مضطرب تھا، مگر سچ لکھنا ہی میرا فرض تھا۔ میں جانتا ہوں کہ یہ الفاظ وقت کی گرد میں گم نہیں ہوں گے، بلکہ تاریخ کے سینے پر ایک گواہی بن کر نقش ہوں گے۔ آج اس مٹی پر جو لہو گرا ہے، وہ رائیگاں نہیں جائے گا۔ بلوچستان کی ہوائیں گواہ ہیں کہ ایک دن یہ لہو پکارے گا، اور پھر وہ وقت آئے گا جب یہ زمین ان دشمنوں سے انتقام لے گی جو اس کی گود کو خون آلود کرنے کے درپے ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب بلوچستان کے پہاڑ، اس کے دریا، اس کے میدان سب یک زبان ہو کر پکاریں گے: "اے دشمنو! ہم نے تمہیں پہچان لیا، اور اب وقت آگیا ہے کہ تمہاری چالیں تمہیں لے ڈوبیں!" بلوچستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد!