ہمارے ملک میں ہر ڈکٹیٹر کو ہمیشہ کسی ایسے دشمن کی تلاش رہی ہے جس سے فائدہ اٹھا کر مذہب اور پاکستانیت کے نام پر اپنے سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈالا جا سکے۔ عوام کو رنگ برنگی کہانیاں اور لوریاں سناکر انہیں اصل مسائل کی طرف نہ آنے دیا جائے اور نہ ان مسائل کی نشاندہی ممکن ہو سکے۔ اس کام کےلئے ان کے نقطہ نظر کے مذہبی و سیاسی راہنما اور دستیاب میڈیا انکے دست بازو بنے رہے۔ لیاقت علی خاں کا اصل کام آئین بنانا تھا نہ کہ”قراردمقاصد“ کی ترتیب وتشکیل دینا۔ اسی اثناءمیں بھارت میں آئین بن گیا اور جاگیرداری نظام کو ختم کردیا گیا۔ سابقہ ریاستوں کے والیان، راجاو¿ں اور مہاراجوں کی پنشن مقرر کردی گئی۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یہ پنشن بھی اتنی تھوڑی رہ گئی کہ ان مہاراجوں اور والیان کوکوئی کام دھندہ کرکے وقت گذارنا پڑا۔ لیاقت علی خاں نے بھی ”کیمونسٹ بلاک“ کے نام سے دشمن ڈھونڈا اور راولپنڈی سازش کیس کے نام سے اپنے تئیں ایک بڑی سازش بے نقاب کی جو پاکستان کو ایک عدد فوجی انقلاب کے ذریعے کیمونسٹ ملک بنانا چاہتی تھی۔ جس کی ہمارے اہل مذہب اور دستیاب میڈیا نے بھی خوب تشہیر کی۔ راولپنڈی سازش کیس کئی سال چلا اور بالآخر فیض احمد فیض سمیت سبھی جیلوں سے گھروں کو آگئے اور ایک محب وطن سیاستدان کی حیثیت سے نہ صرف پاکستان بلکہ فلسطین کے مسلمانوں کی بہت خدمت کی۔
لیاقت علی خاں کو شہید کیا گیا تو اقتدارکی خوشبو سونگھنے والوں کی سب لوریاں صبح ہوتے ہی تمام ہوگئیں۔ سب افسانے وقت نے سچ سچ اگل دیئے۔ کیمونسٹ بھی یہاں رہے اوراہل مذہب بھی، مگرمحب وطن لوگوں کے آرام میں بھی خلل نہ آیا۔ جب جنرل ایوب خاں نے اقتدار سنبھالا تو اسے ایسے کسی ملک دشمن اور غداروں کی ضرورت محسوس ہوئی تاکہ وہ ان کو فلم کاولن اور خودکو بطور ہیرو پیش کرکے حکومت چلائیں۔ کیمونسٹ ابھی موجود تھے، انکی کیمونسٹ پارٹی اور دیگر ترقی پسند بھی موجود تھے۔ ان پر کئی بارہلہ بول بول کر لوگوں کو باورکرا دیا گیا کہ یہ وطن کے اور تمہارے دشمن ہیں۔ اسی اثناءمیں لاہورکے شاہی قلعہ میں ایک کیمونسٹ طالب علم راہنما، حسن ناصر کو دوران تفتیش شہید کردیا گیا۔ خواجہ طفیل اس تفتیشی ٹیم کے سربراہ تھے۔ پھرکئی روز اس کی قبر کے محل وقوع کا تعین ہوتا رہا۔ دلچسپ مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ عام آدمی کو حسن ناصر شہید سے صرف اخباری خبروں کے ذریعے ہی کچھ کچھ تعارف تو تھا مگر ہمدری کم کم تھی کیونکہ وہ ایک کیمونسٹ تھا۔ مادر ملت کے مقابلے میں صدارتی انتخاب میں دھن دھونس اور دھاندلی سے جیت کر جنرل ایوب خاں اندر سے لڑکھڑا چکا تھا۔
مغربی پاکستان کے گورنر نواب کالاباغ کی فراغت کے بعد ایوب خاں بھی واضح طور پر اعتماد کا حامل نہ رہا۔ نئے گورنر جنرل موسی خاں نے بھی عوامی حقوق کا گلا گھونٹا۔ ایک بار گوجرانوالہ میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے موسی خاں نے ارشاد فرمایا کہ آپ اگر گوجرانوالہ سے لاہور چلے جاتے ہو تو جمہوریت اورکس چیز کا نام ہے۔ کیسے کیسے ”نابغے“ اس ملک کو چلاتے رہے ہیں۔ مشرقی بازو میں جنرل ایوب خاں نے بہت پہلے ہی اگر تلہ کے مقام پر ایک ”غدار“ مجیب الرحمان کو تلاش کرکے اسے خوب پالش کیا اور پھر جب جنرل کے جانے کا وقت ہوا توکئی کئی ماہ اسکے نام سے لوگوں کو ڈراتا رہا۔ جماعت اسلامی بھی اس”نیک کام“ میں حصہ ڈال کر عنداللہ ماجود ہوئی۔ مغربی پاکستان میں جماعت ایوب خاں کیخلاف اور مشرقی پاکستان میں حب الوطنی کے نام پر اسکے ہاتھ کی چھڑی تھی۔ جنرل ایوب خاں کو جنرل یحییٰ خاں نے طاقت کے زورپر چلتا کیا اور ملک میں نئی صبح کے آغاز کا اعلان کیا ”ایک فردایک ووٹ“ کی بنیاد پر انتخابات کروانے کے ساتھ یہ بھی قدغن لگائی کہ اگر 120دن میں نو منتخب اسمبلی نے آئین نہ بنایا تو اسے توڑ دیا جائےگا۔ بہرحال انتخابات ہوئے اور بلاشبہ یہ منصفانہ اور غیر جانبدارانہ تھے۔ ملک میں شیخ مجیب الرحمان کی جماعت عوامی لیگ نے قطعی اکثریت حاصل کرلی، دوسرے نمبرپر کم وپیش 100 کی کمی کے فرق سے پاکستان پیپلز پارٹی رہی۔ بنگالیوں کو مگر بدقسمتی سے اس عظیم الشان کامیابی پر اقتدار کی بجائے موت اور رسوائیاں ملیں۔ مشرقی پاکستان خون میں نہاگیا۔ عوامی لیگ کے پرجوش نوجوان اپناحق مانگنے آگے بڑھے تو انہیں ”مکتی باہنی“ کا نام دےکر ایک نیا دشمن تلاش کرلیا گیا۔ انکے ظلم وستم کی داستانیں ہم مغربی پاکستانیوں کو سنائی گئیں مگر فوجی ایکشن کو مقدس قراردیاگیا۔ مشرقی پاکستان الگ ہوگیا اور مغربی پاکستان کو پاکستان قرار دے دیاگیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نئے ملک کے وزیراعظم بنے اورکام چلنا شروع ہوگیا۔ان کے خلاف”پاکستان قومی اتحاد“ کے نام سے ایک بھرپور تحریک چلی جس کے نتیجے میں انہیں اقتدار کی راہداریوں سے جیل کی بیرکوں میں جانا پڑا۔ پیپلز پارٹی کے قائدین اور کارکنان بھی ظلم وتعدی کا نشانہ بننے شروع ہوگئے۔
ملک کی سیاسی قیادت نے ہوشمندی کا مظاہرہ کیااور تحریک بحالی جمہوریت MRD کے نام سے چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر اورصدر پاکستان جنرل ضیاءالحق کے خلاف ایک سیاسی اتحاد قائم کردیا۔ اب پیپلز پارٹی کے علاوہ MRD میں شامل تحریک استقلال، نیشنل عوامی پارٹی۔ جمہوری پارٹی، مسلم لیگ (قاسم گروپ) اورجمعیتہ علماءاسلام کے کارکنان اور قائدین بھی گرفتار ہوکر جیلوں کا رزق بنے۔ اسی اثناءمیں پیپلز پارٹی کے چند کارکنوں نے PIA کے جہاز کو اغواءکیا اور اسکی ذمہ داری ”الذوالفقار“ کے نام سے قبول کرلی۔جنر ل ضیاءالحق کو بھی ایک دشمن مل گیا جس سے انہوں نے سیاستدانوں کو مار مار کر ادھ موا کردیا۔ کیلنڈر کے صفحات الٹتے رہے اور ہم بانی PTI کے مخالف اتحادPDM کے دورمیں آگئے۔ ایوب خاں کے کیمونسٹوں یحییٰ خاں کی مکتی باہنی، ضیاءالحق کی الذوالفقارکے بعد سب قصہ پارینہ بن گئے بلکہ الذوالفقارکے طارق بشیر چیمہPDM کے وزیر بھی بن گئے۔ اب ایک دشمن 9مئی کی شکل میں مل گیا ہے۔ تشدد کا ایک نیا دورشروع ہوا۔ کب ختم ہوگا؟ کچھ پتہ نہیں مگر امید ہے کہ غم کی لمبی شام ضرورڈھلے گی۔ صبح تو ضرور ہوگی۔