غزہ سے متعلق اقوامِ متحدہ  انکوائری کمیشن کی رپورٹ

اقوام متحدہ کے انکوائری کمیشن نے غزہ میں اسرائیلی مظالم پر رپورٹ جاری کر دی جس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے نسل کشی کے لیے غزہ میں خواتین کے صحت مراکز کو نشانہ بنایا۔ غزہ میں صنفی تشدد کو جنگی حکمت عملی کے طور پر استعمال کیا۔ صنفی تشدد اور صحت مراکز کی منظم تباہی سے اسرائیل نے نسل کشی کی کارروائیاں کیں۔ اسرائیلی حملوں اور طبی سامان کی قلت سے حاملہ خواتین کی اموات میں اضافہ ہوا۔ اسرائیل کی منظم کارروائیاں انسانیت کے خلاف جرائم کے مترادف ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اقوام متحدہ کی رپورٹ کو جانبدار قرار دے دیا۔ ادھر، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آئرلینڈ کے وزیراعظم مائیکل مارٹن کے ساتھ ملاقات کے دوران میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ غزہ سے کسی فلسطینی کو کوئی نہیں نکال رہا۔ صدر ٹرمپ نے سینیٹ میں اقلیتوں کے قائد چک شومر کو طنزیہ طور پر فلسطینی قرار دیا۔ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ سینیٹ میں اقلیتوں کے لیڈر چک شومر پہلے یہودی تھے لیکن اب وہ مکمل فلسطینی بن چکے ہیں۔ اس سے قبل صدر ٹرمپ نے ایک بیان میں غزہ کو امریکی ملکیت میں لینے، فلسطینیوں کی بے دخلی اور غزہ کو جدید ترین اور ماڈرن بستی کے روپ میں ڈھالنے سے متعلق منصوبے کی بات کی تھی۔ مجوزہ منصوبے کو عالمی برادری نے مسترد کردیا تھا۔ اس سلسلے میں ایک اہم پیشرفت یہ ہے کہ حماس نے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے نئے دور کے آغاز کا اعلان کر دیا۔ امریکی ایلچی سٹیو وٹکوف مذاکرات کے لیے قطر پہنچ رہے ہیں۔ اسرائیل نے لبنان سرحد کی حد بندی پر مذاکرات کا اعلان کر دیا، اسرائیل نے یرغمال بنائے گئے پانچ لبنانی شہریوں کو چھوڑ دیا۔ اسرائیل نے لبنان، امریکا اور فرانس کے ساتھ حد بندی کے لیے گروپس قائم کرنے پر اتفاق کر لیا۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ اقوام متحدہ اسرائیل کی تمام تر جارحیت سے اچھی طرح آگاہ ہے۔ غاصب صہیونی انسانی حقوق کی پامالی سمیت فلسطینیوں کی نسل کشی بھی کر رہے ہیں جس کا اعتراف اقوام متحدہ خود کر رہا ہے تو پھر ان کے خلاف کارروائی کرنے میں کیا امر مانع ہے؟ محض اعتراف کرنے اور جنگ بندی جیسے مشورے دینے سے بڑی طاقتوں کے سامنے اس کی بے بسی کا ہی اظہار ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کو اپنا مؤثر کردارا دا کرنے کی ضرورت ہے ورنہ اسرائیل اور امریکی گٹھ جوڑ دنیا کی تباہی پر منتج ہوسکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن