عہد الست: 

عہد الست ایک اہم دینی اور فلسفیانہ مفہوم ہے جو قرآن مجید کی سورۃ الاعراف کی آیت 172 میں ذکر کیا گیا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں سے ایک اقرار لیا تھا جسے عہد الست کہا جاتا ہے۔ 
پہلا میثاق اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمام انسانوں کی روحوں سے اپنی توحید اور اْلوہیت کا لیا جس میں اللہ رب العزت نے ہر انسانی روح سے یہ عہد لیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کو ایک مانے گا، اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان لائے گا اور اْس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائے گا۔ اسے ''میثاقِ اَلَست'' بھی کہتے ہیں
یہ عہد انسانوں کے لیے ایک روحانی حقیقت ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ انسانوں کے دلوں میں اللہ کی ہدایت اور اس کے ساتھ تعلق کا ازلی رشتہ ہے۔ اس عہد کا ذکر سورۃ الاعراف میں یوں آیا ہے:
ترجمہ:
 "اور جب تیرے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسلوں کو نکالا اور ان سے خود کو گواہ بنایا، فرمایا: کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ وہ بولے: ہاں، ہم گواہی دیتے ہیں تاکہ قیامت کے دن تم یہ نہ کہو کہ ہم اس بات سے غافل تھے۔"
اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی یہ واقعہ موجود ہے۔چنانچہ امام احمد رحمہ اللہ اپنی مسند میں اس سے متعلق ایک صحیح حدیث نقل فرماتے ہیں:
"رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں :اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ کی پیٹھ سے ( ان کی اولاد کو نکال کر ان سے) نعمان یعنی (میدان) عرفات کے مقام پر عہد لیا ( اور وہ اس طرح کہ ) اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کی صلب سے (ان کی) تمام اولاد کو جن کو (اللہ) نے پیدا (کرنے کا ارادہ ) کیا تھا انکی صلب سے باہر نکالا پھر ان کو اپنے سامنے چیونٹیوں کی مانند پھیلا دیا پھر ان سے بالمشافہ بات کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے پوچھا ! کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں ان سب نے کہا کیوں نہیں ، ہم گواہی دیتے ہیں (کہ تو ہی ہمارا ربّ ہے۔"
عہد الست کے لفظی معنی ہیں "آٹھواں عہد" یا "ہمیشہ کا عہد"۔ اس عہد کا ذکر قرآن مجید میں اس وقت ہوا جب اللہ تعالیٰ نے تمام بنی آدم کی روحوں کو ایک مقام پر جمع کیا اور ان سے اپنی ربوبیت اور وحدانیت کا اقرار لیا۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں سے سوال کیا: "کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟" اور انسانوں نے جواب دیا: "ہاں، ہم گواہی دیتے ہیں۔"
یہ واقعہ ایک روحانی حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ جب انسانوں کی روحیں ابھی جسموں میں نہیں آئیں تھیں، تب بھی ان کے دلوں میں اللہ کے ساتھ تعلق کا ایک شعور موجود تھا۔ عہد الست دراصل انسانوں کے فطری عقیدہ کا اظہار ہے جس میں انہوں نے اللہ کی ربوبیت اور وحدانیت کو تسلیم کیا۔ اس عہد میں انسانوں کو اللہ کی حقیقت کے بارے میں گواہی دینے کا حکم دیا گیا تھا، تاکہ وہ اپنی زندگی میں اس حقیقت کو تسلیم کریں اور اس پر ایمان لائیں۔
عہد الست کا فلسفہ یہ ہے کہ انسان کی فطرت میں اللہ کی عبادت اور اس کی اطاعت کا جذبہ موجود ہے۔ یہ عہد انسانوں کے دلوں میں ایک ازلی اور فطری حقیقت کے طور پر تھا، جس کا مقصد انسانوں کو اپنی حقیقت اور مقصدِ زندگی کی جانب رہنمائی فراہم کرنا تھا۔ اس عہد کے ذریعے انسانوں کے دلوں میں اللہ کی ہدایت اور اس کی موجودگی کا شعور ڈالا گیا تھا، اور اس بات کا عندیہ دیا گیا تھا کہ انسان کو اپنی زندگی میں اللہ کی رضا کی کوشش کرنی چاہیے۔
یہ عہد اس بات کا غماز ہے کہ انسان کی فطرت میں اللہ کی عبادت کا جذبہ ازل سے موجود ہے اور اس کی زندگی کا مقصد اللہ کے ساتھ تعلق قائم کرنا ہے۔ عہد الست دراصل انسانوں کے دلوں میں اللہ کی ذات کا شعور پیدا کرتا ہے اور انہیں یاد دلاتا ہے کہ ان کی اصل حقیقت اور مقصدِ زندگی اللہ کے ساتھ تعلق میں ہے۔
عہد الست کا اثر انسانوں کی زندگی پر گہرا اور دائمی ہوتا ہے۔ یہ عہد انسانوں کو اللہ کے ساتھ تعلق کی اہمیت اور اس کے ساتھ سچے تعلق کی اہمیت سے آگاہ کرتا ہے۔ انسان اپنی فطرت کے مطابق، جو کہ اللہ کے ساتھ تعلق کا تقاضا کرتی ہے، اپنی زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہے اور اللہ کے حکموں کی پیروی کرتا ہے۔ اس عہد کے ذریعے انسانوں کو اللہ کے ساتھ ایک گہرا اور پائیدار رشتہ قائم کرنے کا شعور حاصل ہوتا ہے، جو کہ زندگی کے تمام مراحل میں ان کی رہنمائی کرتا ہے۔
اس عہد کی بنیاد پر انسان اپنے ہر عمل میں اللہ کی رضا کی کوشش کرتا ہے اور اس کی ہدایت کی پیروی کرتا ہے۔ انسان کے دل میں اس عہد کا شعور ہمیشہ موجود رہتا ہے اور یہ اس کے عملوں میں ظاہر ہوتا ہے، چاہے وہ عبادت ہو، اخلاقیات ہوں یا معاشرتی تعلقات۔
عہد الست کی روحانی اہمیت اس بات میں مضمر ہے کہ اس نے انسانوں کے دلوں میں اللہ کے ساتھ تعلق کو مضبوط کیا۔ یہ عہد انسانوں کو یاد دلاتا ہے کہ ان کی حقیقت اور مقصدِ زندگی اللہ کے ساتھ تعلق استوار کرنا ہے۔ اس عہد کی حقیقت میں ایک ایسی آواز چھپی ہوئی ہے جو انسان کو زندگی کے تمام مراحل میں اللہ کے ساتھ رابطے کی اہمیت سمجھاتی ہے۔
اس عہد کے ذریعے انسانوں کی فطرت میں ایک قدرتی میل پیدا کیا گیا ہے جسے وہ اپنی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں محسوس کرتے ہیں۔ عہد الست نے انسان کے دل میں یہ بات بٹھائی کہ اللہ کی عبادت اور اس کے ساتھ تعلق قائم کرنا اس کی فطرت کا حصہ ہے، اور اس کی زندگی کا مقصد اللہ کے ساتھ ایک مضبوط رشتہ استوار کرنا ہے۔
عہد الست کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اللہ نے انسانوں سے یہ عہد بغیر کسی جبر کے لیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو اپنی مرضی سے یہ عہد نبھانے کا اختیار دیا گیا تھا۔ اس عہد میں اللہ کی طرف سے کوئی زبردستی نہیں تھی، بلکہ انسانوں کو خود اپنی مرضی سے اللہ کے ساتھ تعلق قائم کرنے کی آزادی دی گئی تھی۔
یہ آزادی انسانوں کو اپنی فطرت اور اختیار کے مطابق زندگی گزارنے کی صلاحیت دیتی ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ ان پر یہ ذمہ داری بھی ڈالتی ہے کہ وہ اس آزادی کو اللہ کی رضا کے مطابق استعمال کریں۔ انسان اپنی مرضی سے انتخاب کرتا ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ تعلق قائم کرے یا نہ کرے، اور یہی آزادی اس کے عملوں کا تعین کرتی ہے۔
عہد الست کا نتیجہ یہ ہے کہ انسانوں کے دلوں میں ہمیشہ ایک گواہی موجود رہتی ہے کہ وہ اللہ کے بندے ہیں اور ان کی زندگی کا مقصد اللہ کی رضا کی کوشش کرنا ہے۔ اس عہد کی موجودگی انسانوں کے اندر اس بات کا شعور پیدا کرتی ہے کہ ان کی زندگی کا مقصد اللہ کے ساتھ تعلق قائم کرنا ہے، اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے انہیں اپنی زندگی کو اللہ کے احکام کے مطابق گزارنا چاہیے۔
یہ عہد انسانوں کے لیے ایک رہنما اصول کی مانند ہے جو ان کی زندگی کے تمام پہلوؤں میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ عہد الست دراصل انسانوں کے دلوں میں اللہ کی محبت، عبادت اور اطاعت کا جذبہ پیدا کرتا ہے، اور انہیں اپنے مقصدِ حیات کو سمجھنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
عہد الست کو "عہد الست" اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ یہ عہد انسانوں کی روحوں کے اس ازلی مقام پر لیا گیا تھا جہاں ابھی انسانوں کا جسم نہیں تھا اور نہ ہی اس دنیا کی موجودگی تھی۔ یہ عہد اللہ کی موجودگی میں تھا، اور "ست" کا لفظ اس اقرار کی نوعیت کو بیان کرتا ہے، یعنی انسانوں کے دلوں میں اللہ کے ساتھ ایک گہرا تعلق تھا، جو ہمیشہ کے لیے تھا۔ "الست" کا لفظ اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ انسانوں کا اللہ کے ساتھ یہ تعلق ازلی اور ثابت ہے، اور یہ عہد قیامت تک قائم رہنے والا ہے۔
عہد الست ایک روحانی عہد تھا جو انسانوں کو اپنے خالق کے ساتھ ایک گہرا تعلق قائم کرنے کی یاد دہانی کراتا ہے۔ اس عہد کے ذریعے انسانوں کی فطرت میں اللہ کی موجودگی اور اس کی ربوبیت کا شعور رکھا گیا ہے، اور اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی اللہ کے احکام کے مطابق گزارے اور اس کے ساتھ سچا تعلق قائم کرے۔ یہ عہد انسان کی فطرت کا حصہ بن چکا ہے، اور اس کی روشنی میں انسان اپنی روحانیت اور حقیقت کو سمجھتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن