کرن عزیز کشمیری
Kiranazizkashmiri@gmail.com
غزہ میں پچھلے ڈیڑھ سال سے اسرائیل کی جانب سے بے تحاشہ ظلم و ستم ڈھائے جا رہے ہیں۔ ظلم و تشدد کا شکار فلسطینی بے یار و مددگار ہیں۔ دنیا اس وقت ایک تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے۔ ایک ایسا تماشائی جس کے لیے اسرائیل کی درندگی ایک عام بات ہو، خوفناک مناظر، تماشائی ، اپنی انکھوں میں قید کر لیتا ہے اور جن کی زبان کی خوف سے نہیں بلکہ بے حسی سے جیسے سیل گئی ، چپ کی سرنگ اس وقت فلسطینیوں کو بیک وقت کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مظلوم غزہ کے لوگوں کو اسرائیل روندے جا رہا ہے۔ انسانیت جیسے کچل رہی ہے۔ غزہ کے لوگ اپنی آخری سانسیں لے رہے ہیں۔ ہولناک بمباری نے دل دہلا دیے ہیں۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ تمام مسلم ممالک خاموش تماشائی کا روپ اختیار کیے ہوئے ہیں.اسرائیل کا ظلم ایک ایسی لاٹھی ہے فلسطینیوں پر برسے جارہی ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق بیت المقدس خطرے میں ہے۔ بھوک اور پیاس سے فلسطینی نڈھال ہے۔ واضح رہے کہ سات اکتوبر 2023 سے اب تک اسرائیلی حملوں میں 50 ہزار 700 سے زائد فلسطینی شہید ہوئے ہیں۔ان میں عورتیں، بوڑھے، بچے بھی شامل ہیں۔ ماں کی اجڑتی گودیں فریاد کر رہی ہے کہ اخر کب تک غزہ کی نسل اس بے دردی سے مٹتی رہے گی۔ سوئی ہوئی انسانیت اخر کب جاگے گی اور کب سمجھے گی۔ 18 مارچ کے بعد اسرائیل کی جانب سے جنگ کی شدت میں اضافہ ہوا ہے، جبکہ حالیہ رپورٹ کے مطابق 46 فلسطینی تازہ ترین بمباری میں شہید ہوئے ہیں۔ ماہ مارچ میں تقریبا 1300 فلسطینی شہید ہوئے ہیں۔اتنی بڑی تعداد میں فلسطینیوں کی نسل کشی عالمی ادارہ امن کے لیے سوالیہ نشان ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں کیوں خاموش ہیں۔ خوراک کی قلت سے درجنوں بچوں کی اموات ہوئی ہے، جبکہ عرب علما کا یہ فتوی ہے کہ مسلمان ملکوں پر غزہ کی فوجی مدد لازم ہے۔ عرب ممالک کی بے حسی سے صاف ظاہر ہے کہ اپنے اپنے مفاد کو مد نظر رکھا گیا ہے اور یہ سلسلہ برسوں سے چل رہا ہے۔ فلسطین کا مسئلہ حل کی جانب رخ نہیں موڑ رہا بلکہ سرد خانے میں پڑا ہے۔ عرب ممالک چاہیں تو اپنے مینڈیٹ کے مطابق غزہ کی معاشی صورتحال میں بہتری لا سکتے ہیں تا ہم ان ممالک کا کردار اس اندوہناک صورتحال میں انتہائی قابل افسوس ہے۔ او آئی سی کا کردار ایک کمزور ہوا کے جھونکے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اس ضمن میں اسلامی تنظیموں کو چاہیے کہ اسرائیل کی بربریت کے خلاف ہم آواز ہو جائے، تاکہ فلسطینیوں کے زخموں کا کم از کم کچھ تو مداوا کیا جا سکے۔ گزشتہ دنوں فلسطینیوں کی جانب سے عالمی ہڑتال کی بھی اپیل کی گئی۔ تمام مسلم ممالک سے فلسطین کا رشتہ نہ صرف انسانی ہمدردی بلکہ جذبہ ایمانی بھی ہے۔ سچا جذبہ باطل کو مٹا دیتا ہے۔ اس جبر اور ظلم کے خلاف آواز بلند نہ کر کے غزہ کے لوگوں کو ہم نے ظلم میں جھونک دیا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان نے بھی سلامتی کونسل کے کردار پر سوال اٹھایا ہے یہ امر انتہائی شرمناک ہے کہ طبی کارکنوں کا بھی قتل عام کیا جا رہا ہے۔ ناقابل برداشت امر یہ ہے کہ انسانیت کو کچلنے والے تمام حدیں عبور کر چکی ہیں۔ زخمیوں تک امداد پہنچنے ہی نہیں دی جا رہی۔ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ اگر زخمیوں تک امداد ہی نہیں پہنچنے دی جا رہی، تو باقی زخمی لوگوں کو کیسے بچایا جا سکتا ہے۔ صورتحال انتہائی گمبھیر ہے۔ مذہبی بیانات اسرائیلی درندگی کو روکنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ اسرائیل کی غزہ پر جاری درندگی پر ہم دیکھ رہے ہیں کہ لوگ رو رہے ہیں۔ میری ان روتے ہوئے لوگوں سے گزارش ہے کہ آپ کا درد انسو کے ذریعے نہیں بہنا چاہیے بلکہ احتجاج بن کر چیخ میں بدل تبدیل ہو جانا چاہیے۔ایک ایسی چیچ جس کی گونج فلسطینیوں تک پہنچ جائے اور انھیں یہ یقین ہو جائے کہ ان کے لیے آواز بلند کی جا رہی ہے۔ اسرائیلی درندگی کے خلاف بات کی جا رہی ہے۔یہ امر سمجھ سے سے بالاتر ہے کہ جا رہی ہے کہ آخر مسلم ممالک کو کسی بات کا خوف ہے۔ کیوں کہ جو امر ہمیں سمجھ آ رہا ہے، صاف ظاہر ہے کہ مفادات کا تحفظ ہی سر فہرست ہے،جب کہ ایک اہم سوال یہ ہے کہ عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات کیوں بنانا چاہ رہے ہیں یا اس حوالے سے مفاہمت کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ یاد رہے کہ یہ طرز عمل فلسطینیوں کی اس حق کی جنگ کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ غزہ کی عوام بے بس ہیں۔ دن کی روشنی ہو یا رات کا اجالا بس اپنے شہیدوں اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھانے میں مصروف ہیں۔ شہید ہونے والے نوجوانوں کے والدین غم سے نڈھال ہیں۔ اسرائیلی محاصرے کے باعث غزہ میں سخت غذائی قلت ہے۔ تمام مسلم ممالک کو چاہیے کہ اس سلسلے میں فوری اقدامات بروئے کار لائے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی غزہ میں غذائی قلت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا جائز کردار ادا کرے۔ قابل مذمت امر یہ ہے کہ اسرائیل کے غزہ میں معاہدے کے باوجود حملے جاری ہیں۔ ایک اہم ذرائع نے رپورٹ کیا ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطین انتہائی مشکل میں ہے۔ اسرائیل کی جانب سے ان قیدیوں کو سخت ترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا، خون آشام درندے بڑی تیزی سے فلسطینیوں کی نسل کشی کیے جا رہی ہے۔ اسرائیلی جیلوں میں بد سے بدترین ظلم سہتے فلسطینی قیدی مدد کی تلاش میں ہیں۔ غزہ سے آخری افسوسناک اطلاعات یہ ہیں کہ بازاروں سے ضرورت کی اشیا ختم کر دی گئی ہے تاکہ فلسطینی کسی طرح سے بھی اور کہیں سے بھی مستفید نہ ہو سکیں، اور اقوام متحدہ کی جانب سے جو 25 روٹی فراہم کرنے والے ذرائع تھے فلسطینیوں کے لیے مکمل طور پر بند کر دیے گئے ہیں۔ غزہ کے مسلمانوں کا یہ کہنا ہے کہ ان پابندیوں کا ان پر تباہ کن اثر پڑ رہا ہے۔ دنیا اسرائیل کو مجبور کرے کہ اب غزہ والوں پر یہ ظلم بند کر دے!!