کرونا وائرس کا پھیلائو…

پاکستان ابھی ترقی یافتہ ملک نہیں ہے اور نہ ہی یہاں کے اکثریتی عوام اخلاقی اقدار کی اسطرح پاسداری کرتے ہیں جیسے مہذب معاشرے کرتے ہیں۔ کرونا وائرس کی وباء کے پھیلائو میں دوسرے ممالک میں جو ذرائع کار فرما ہیں ہمارے مْلک میں ان سے اضافی بھی بہت سے عوامی عوامل اس کے پھیلائو کا سبب بن سکتے ہیں۔ ان عوامل میں سب سے پہلے عوامی رویہ پھر عوامی معاشرتی ہائی جین اور بعد میں حکومتی وسائل اور عملاً انکا درست استعمال ہے۔
پاکستان میں اگر کوئی آدمی پچھلے چند دنوں میں اٹلی ، چائینہ یا ایران وغیرہ سے آیا ہو اور تب سے ہی یا آنے کے ایک دو دن بعد سے سانس کی بیماری یا کھانسی بْخار وغیرہ میں مبتلاء ہو تو ہمارے لوکل محکمہ صحت کا اس پر کیا ایکشن ہوتا ہے اور خود اس مریض یا اس کے لواحقین کا قرنطینہ یا طِبی علیحدگی کے بارے کیا رویہ ہوتا ہے ؟
کیا کوئی مکمل طور پر تیار اور ضروری Gadgets اور سیکیورٹی سے لیس ہیلتھ ٹیم اسے معائنہ کرنے کے بعد قرنطینہ/ طبی علیحدگی میں رکھتی ہے ؟
کیا اس ٹیم کو اس آدمی کی رضا ہونے یا نہ ہونے کے باوجود اسے ساتھ لا کر علیحدہ رکھنے اور ضروری ٹیسٹ کروانے کیلئے قانونی تحفظ دیا گیا ہے ؟
کیا ہر ضلعی لیول پر آئسولیشن وارڈز ، کرونا ٹیسٹ کِٹس ، ہیلتھ ٹیم کے حفاظتی لباس، ڈس انفیکٹنٹ سپرے اور انفیکشن کنٹرول کی سپیشل گاڑی فراہم کر دی گئی ہے ؟
کیا عوام کو اس وباء سے بچائو کے بارے اور اگر حال ہی میں کوئی بیرون ملک سے واپس آیا شہری ان میں ہو تو اسکا رابطہ کروانے کیلئے قائل کرنے کی عوام ایجوکیشن تحریک مؤثر طریقے سے چل رہی ہے ؟
کرونا وائرس ایک وباء ہے ، اس کے آگے اس وقت دْنیا کی ساری سْپر پاورز گْھٹنے ٹیک چْکی ہیں۔پاکستان کے پاس تو اتنے وسائل بھی نہیں ہیں اور اوپر سے اکثر عوام بھی علم اور فائدے کی بات ماننے سے سخت انکاری ہوتے ہیں۔ اگر خدانخوستہ چند ایک کیسز بھی ادھر دیہاتی یا شہری آبادی کے بیچ آگئے تو ہم تصور بھی نہیں کر سکتے کہ اسکا کیا نتیجہ ہوگا۔
کرونا ایک وائرس ہے ، یہ بیکٹیریا سے مختلف ہوتا ہے اور زیادہ خطرناک اور زور آور بھی۔
ایک غلط فہمی دور کرلیں کہ جتنے بھی اینٹی بیکٹیریل صابن یا ہینڈ واش ہیں وہ اسے نہیں مار سکتے۔ ان سے ہاتھ دھونا یا پانی سے دھونا اس وائرس کیلئے ایک برابر ہے۔لہذا بہتر ہے صرف عام صابن اور پانی سے ہاتھ بار بار دھوئے جائیں۔ نل کے بہتے پانی کے نیچے کم از کم 30 سیکنڈ ہاتھ رہنا چاہئیے۔ اس سے یہ وائرس دْھل جاتا ہے اور ہاتھ صاف ہوجاتا ہے۔ایک اور اہم بات یہ کہ ہمارے لوگوں کی عام عادت ہے کہ کھانستے ہوئے سامنے بیٹھے یا کھڑے بندے کے اوپر کھانستے ہیں۔ کچھ کے کھانسنے کی تو بدبو اور تْھوک کے چھینٹے تک اگلے بندے کو اپنے منہ پر پڑتے محسوس ہوتے ہیں۔ بڑے بڑے بڑے لکھے اور سند یافتہ چوہدری یہ کر رہے ہوتے ہیں۔اور اگر کوئی انکو منع کر دے یا بتا دے کہ یہ اسلام کے مطابق منع ہے یا یہ کہ پلیز چھینک مارتے یا کھانستے ہوئے منہ پر ٹِشو یا بازو رکھ لیا کریں تو یہ لوگ شدید غْصہ کر جاتے ہیں۔
یاد رہے کھانستے یا چھینکتے ہوئے منہ پر ہاتھ نہیں رکھنا چاہئیے بلکہ ٹِشو پیپر اور اگر وہ نہیں تو اپنا ہی بازو آگے کر لیں۔ اگر ہاتھ رکھیں گے تو یہ آلودہ ہاتھ آپ جس بھی جگہ لگائیں گے یا جس بھی آدمی سے یہ ہاتھ ملائیں گے وہ سب بھی انفیکڈ ہو جائیں گے۔
بار بار اپنی مونچھوں کو ہاتھ سے تائو دینا یا چہرے کو ہاتھ سے چھونا بھی اس وائرس کے پھیلائوکی ایک وجہ ہے۔ایک بات بہت اہم ہے کہ جو آدمی قانون یا شرع یا حفظانِ صحت کی بات کا غصہ کرے وہ عملاً جاہل ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو احترام اور پیار سے سمجھائیں اور اگر نہیں سمجھتے تو ان سے سخت حفاظتی تدابیر اپنائیں۔ایک اور صحت کے لحاظ سے بْری عادت جو پورے پاکستان کے عوام میں بالعموم اور دیہاتی آبادی میں بالخصوص اکثر پائی جاتی ہے وہ یہ کہ اکثر لوگ ٹِشو پیر سے ناک یا منہ صاف کرنے کے بعد اسے تہہ کرکے دوبارہ استعمال کیلئے جیب میں ڈال لیتے ہیں۔
اب اگر وہ انفیکٹیڈ ہیں تو انکے ہاتھ بھی گندے، وہ ٹشو پیپر بھی گندہ، اور جیب بھی گندی ہوجاتی ہے۔ جو سارا دن انفیکشن پھیلانے کا کام بخوبی سرانجام دیتی ہے اور مزید یہ کہ مہذب قوموں کی طرح ایسے استعمال شدہ ٹشو پیپر کو ڈسٹ بِن میں پھینکنے اور پھر ہاتھ دھونے کا رواج تو بالکل نہیں ہے۔
اس وباء کے وقت میں ہمیں مہذب قوموں کے طرح اب بیماری کے پھیلائو کے ان طریقوں کو خود ہی ٹھیک کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ایک اور معاشرتی بْری عادت جو ہمارے اکثر لوگوں میں پائی جاتی ہے وہ یہ کہ آپ دیکھیں گے کہ اکثر لوگ ہاتھ پیچھے پاندھ کر یا اکڑ کر چل رہے ہوتے ہیں اور ساتھ ساتھ جگہ جگہ تْھوک رہے ہوتے ہیں۔ پان کھا کر تھوکنے والے اس سے بھی اوپر کی چیز ہیں۔ اب انکے تْھوک سے آلودہ دیواروں اور گلیوں میں عام عوام کے بچے بھی کھیل رہے ہوتے ہیں، جو وہاں سے ایسا انفیکشن کیری کر سکتے ہیں۔
ایسے لوگ بھی ہر طرح کا انفیکشن پھیلانے کا رسک ہیں۔انکو بھی احترام کے ساتھ سمجھائیں۔ اور اگر نہیں سمجھتے تو ہیلتھ اتھارٹی کو اطلاع دیں اور حفاظتی تدابیر اپنائیںجبکہ محکمہ صحت کے لیول پر ایسے وائرس کے انفیکشن کے پھیلائو کا سب سے بڑا ذریعہ انکے اپنے ہسپتال ہیں جہاں:
1- بچوں اور بڑوں کے وارڈ میں ایک ہی عرق باش یا نیبلائزر (Nebulizer) ماسک سے سارے وارڈ کے مریضوں کو سانس یا بھاپ دلوائی جاتی ہے۔
2- تحصیل اور ضلعی لیول کے ہسپتالوں کے آپریشن تھیٹرز میں بالخصوص اور ٹیچنگ ہسپتالوں میں بالعموم جب کئی مریضوں کو ایک ہی ماسک سے بار بار معمولی صفائی کے بعد بے ہوش کرنے والی گیسز دی جاتی ہے اور ایک ہی Laryngoscope سے کئی مریضوں کے منہ کا معائنہ کیا جاتا ہے۔
3- دانتوں کے آلات کی مناسب سٹرلائزیشن عملی طور پر نہیں ہوتی۔
4- ہسپتالوں میں پبلک استعمال کے دروازے، ٹیبلز ، فون بْوتھ، کاونٹرز اور دوسری تمام سطحیوں کی بار بار مناسب ڈس انفیکشن نہیں ہوتی۔
ان سب حفاظتی تدابیر کیلئے عقل، آگہی اور پْختہ ارادے کی زیادہ ضرورت ہے اور وسائل اسکے بعد آتے ہیں۔
ہمارا مْلک اتنے وسائل کا مالک نہیں ہے لہذا ہمیں بحثیت قوم ہر فرد کو خود اس کرونا وائرس کے بارے میں مْستند آگہی حاصل کرکے اس سے بچنے اور دوسروں کو بچانے کا عزم کرنا ہوگا۔ یہی بچاوء کا واحد راستہ ہے۔ اللہ پاکستان کو ایسی ہر وباء سے محفوظ رکھے۔ آمین۔

ای پیپر دی نیشن