اور بھی کھیل ہیں زمانے میں کرکٹ کے سوا

فیض عالم
قاضی عبدالرﺅف معینی
یہ سچ ہے کہ جیت اور ہار کھیل کا حصہ ہوتے ہیں۔ایک کھلاڑی یا ٹیم نے جیتنا ہوتا ہے اور ہار دوسری ٹیم کا مقدر ہوتی ہے۔سپورٹس مین سپرٹ یہی ہے کہ اس حقیقت کو مثبت انداز میں قبول کیا جائے۔کھیل کے میدان کے سیانے فرماتے ہیں کہ کھیل کا اصل گہر فتح و شکست نہیں بلکہ وہ اسباق ہیں جو کھلاڑی حاصل کرتے ہیں اوراصل ہنر کھیل جیتنا نہیں بلکہ اعلیٰ کھیل پیش کرنا ہے ۔ہر مقابلہ سے حاصل کردہ تجربہ کھلاڑی کے لیے زندگی بھر کا اثاثہ ہونا چاہیے ۔لیکن جب مسلسل ، رسواکن ،بد ترین اور ذلت آمیز ہار مقدر بن جائے تو پھر غیرت کو بیدار کرنے کی کوئی تدبیر کرنی چاہیے۔کیوں کہ غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں۔ حالات اور واقعات تو یہی بتا رہے ہیں کہ غیرت ہے جس کا نام وہ بڑی دیر سے تیمور کے گھر سے رخصت لے کر جا چکی ہے۔ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ قومی ٹیم کی کارکردگی اس حد تک مایوس کن ہو جائے گی ۔کیا ہی اچھا ہوتا اگر تمام ذمہ داران حالیہ کرکٹ کے معرکہ میں رسوا کن شکست کے بعدغیرت کا ثبوت دیتے ہوئے کرکٹ کی جان چھوڑنے کا اعلان فرما دیتے ۔ایک تحقیقاتی کمیٹی بنائی جاتی جو ٹیم کی بدترین مسلسل بد حالی کی تحقیق کرتی ،عالمی سطح پر ہونے والی سبکی کے ذمہ داروں کا تعین کرتی اور کوئی طاقت ان عناصر کو مثالی سزا دیتی ۔کیا کریں کہ ملک عزیز میں اس کی کوئی روایت ہے نہ رواج۔اس لیے بہتر ہے کچھ دن مزیدماتم کر کے خاموشی اختیار کر لی جائے۔ایک سیانے نے صائب مشورہ دیا کہ مزید بے عزتی پرگرام سے بچنے کی بجائے کوئی مناسب بہانہ کر کے پیاری قومی ٹیم کو واپس بلا لیا جائے ۔بے روزگاری اور معاشی مسائل کی وجہ سے پریشان قوم کو مزید ڈیپریشن کا شکار نہ کیا جائے ۔ایک ذمہ دار شخصیت نے بیان دیا ہے کہ وہ شعبہ کرکٹ میں سیاست اور گروہ بندی ختم کرنے کے لیے آپریشن کریں گے۔اس کا مطلب تو یہی ہے کہ سیاست، سفارش اور گروہ بندی ہی پاکستانی کرکٹ کے بے مثال زوال کی بنیادی وجہ ہے۔ ویسے تو اس مداخلت پر حیرت کی کوئی بات نہیں ہونی چاہیے۔مملکت خداداد کا کون سا ادارہ ہے جس میں یہ خبیث بیماریاں سیاست اور سفارش نہیں ہیں ۔ لیکن اگر کھیل کے میدان میں گھس جائیں تو پھر عالمی سطح پر ذلت سمیٹنی پڑ جاتی ہے۔پاکستان کی کرکٹ ٹیم کبھی بھی مضبوط نہیں رہی اس لیے اس نے کبھی بھی اعتماد کے ساتھ کھیل کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ہمیشہ دعاﺅں کی درخواستوں سے کام چلانے کی کوشش میں رہے۔ کبھی باﺅلنگ خراب ،کبھی بیٹنگ لائین میں نقص اور کبھی فیلڈنگ کا برا حال۔”تم جیتو یا ہارو ہمیںتم سے پیار ہے“ کے نعروں سے بھی کام چلانے کی کوشش کی گئی۔ کھلاڑیوں کو اعتماد دینے کی ضرورت پر بھی زور دینے کی باتیں ہوتی رہیںلیکن صاحب جب اچھا کھیل پیش کرنے کی صلاحیت ہی نہ ہو تو پھر سب کچھ فضول ہوجاتا ہے۔اس میں شک نہیں کہ ہما رے نوجوان بھرپور جسمانی صحت اور صلاحیتوں کے مالک ہیں ۔پاکستان میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں۔کمی ہے تو سفارش کی اور اس کندھے کی جس پر سوار ہو کر آگے بڑھا جاتا ہے۔بات سچ بھی ہے اور رسوائی کی بھی کہ کھیلوں کے فروغ کے لیے حکومت کی کوئی سرپرستی نہیں اور نہ ہی کوئی سہولتیں ہیں۔افسوس کہ ضلع اورتحصیل کی سطح پر بھی کھیل کے میدان نہیں ہیں۔نوجوان گلیوں اور کھیتوں میں اپنے کھیلوں کے شوق کو پروان چڑھا رہے ہیں۔داد دینی چاہیے ان کھلاڑیوں کی جو اپنے وسائل سے بہت سے کھیلوں کو زندہ رکھے ہوئے ہیں اور بہترین کھیل پیش کر رہے ہیں۔
کرکٹ کا کھیل کبی بھی ہمارا قومی کھیل نہیں رہا۔بدقسمتی یہ بھی ہے کہ تمام کھیلوں کو نظرانداز کردیا گیا ہے اور مملکت کا سارا زور بھی اسی ایک کھیل پر ہے۔ڈوبتی معیشت کے ایک مقروض مملکت کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ اس کھیل پر جھونکا جارہا ہے ۔کرکٹ ایک فضول کھیل اور دور غلامی کی باقیات میں سے ہے۔کبڈی ،فٹبال اور ہاکی بہترین کھیل ہیںان کے فروغ پر محنت کی جانی چاہیے۔اگر آپ اس کھیل پر ہی قومی سرمایہ اور وقت ضائع کرنا چاہتے ہیں تو قومی ٹیم کی مایوس کن کارکردگی کے حقیقی اسباب اور پھر ان کے ازالے کے لیے اقدامات کریں۔ناقص کارکردگی کی وجہ سے بد ترین شکست پر سچ قوم کو سامنے رکھیں۔ایسے ناہل افراد جو کرکٹ کے کھیل سے واقفیت بھی نہیں رکھتے ان کو کرکٹ بورڈ سے یا بورڈ کو ان سے دور رکھا جائے۔حکومتی سیاسی مداخلت کرنے والوں کے سامنے منت ترلا کیا جائے کہ خدا کے لئے اس میدان کو معاف کردو کیونکہ اس شعبہ میں مداخلت بین الاقوامی ذلت کا سبب بنے گی ۔بہترین ٹیلنٹ تلاش کرنے کے لئے دیہاتوں، قصبوں اور شہروں میں طویل المدت کیمپ لگائے جائیں۔منتخب کھلاڑیوں کو فکر معاش سے آزادی کے اسباب کیے جائیں۔ان کی پیشہ ورانہ تربیت کے ساتھ اخلاقی تربیت کا بھی اہتمام کیا جائے۔ہمارے اکثر کھلاڑی مغرب کے جلووں میں کھو جاتے ہیں۔کھلاڑیوں کو مسلسل اور سخت تربیتی عمل میں مصروف رکھا جائے ۔سیانے یہ بھی کہتے ہیں کہ”عید دے رجے کوڈی نہیں کھیڈدے“ یعنی عید پر رج کے گوشت کھانے والا کبڈی کا کھلاڑی نہیں بنتا اس کے لیے مسلسل محنت اور ریاضت کی ضرورت ہوتی ہے۔جذباتی شائقین کرکٹ سے بھی گزارش ہے کہ جذبات کو تھوڑا کنٹرول مین رکھیں کھیل کو کھیل ہی رہنے دیا کریں۔

قاضی عبدالرؤف معینی

ای پیپر دی نیشن