لیاقت بلوچ
اسلام محبت اوراخوت کا دین ہے؛ اسلام چاہتا ہے کہ تمام لوگ محبت،پیار اوراخوت کے ساتھ زندگی بسر کریں مگر قابل افسوس بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں محبت کوغلط رنگ دے کر ''ویلنٹائن ڈے '' کو رواج دیا جا رہا ہے۔ ہر سال 14 فروری کو عالمی یومِ محبت کے طور پر '' ویلنٹائن ڈے'' کے نام سے منایا جانے والا یہ بیہودہ تہوار ہمارے مسلم معاشروں کے دینی، تہذیبی اقدار کو پارہ پارہ کرنے کا ذریعہ بن رہا ہے۔ معاشرے کو تباہی و بے راہ روی کے راستے پر لگانے والے اس بے ہودہ مغربی تہوار کی تمام مکاتبِ فکر کے علماء و مشائخ، اسلامیانِ پاکستان نے واضح اور دوٹوک الفاظ میں مخالفت کی ہے اور اِسے کسی بھی معاشرے کے لیے زہرِ قاتل قرار دیا ہے۔
کوئی بھی مسلمان نہیں چاہتا کہ اسی کی بہن بیٹی کسی نامحرم کو پھول یا تحائف پیش کرے۔ تاہم ہمارے معاشرے میں موجود ایک چھوٹا سا لبرل طبقہ اس تہوار کے فروغ کے لیے سرگرداں نظر آتا ہے۔مسلم نوجوان لڑکوں، لڑکیوں کا وہ طبقہ جو بدقسمتی سے اسلامی تعلیمات سے ناواقف ہے۔
تیسری صدی عیسوی کے آخر میں رومی بادشاہ کے زیر حکومت کسی نافرمانی کی وجہ سے ایک پادری کو جیل میں بند کردیا گیا تھا۔ دورانِ اسیری اْس پادری کی جیل کے چوکیدار کی لڑکی سے علیک سلیک ہوگئی اور دونوں ایک دوسرے کے "عشق" میں مبتلا ہو گئے، یہا ںتک کہ اس لڑکی نے نصرانیت قبول کرلی۔ وہ لڑکی ایک سرخ گلاب کاپھول لے کر اسیر پادری کے پاس آنے لگی۔ جب بادشاہ کو اس معاملے کا علم ہوا تو اس نے پادری کو پھانسی دینے کا حکم دے دیا۔آخری لمحات میں اس پادری نے لڑکی کے نام ایک کارڈ بھیجا جس پر لکھا تھا ’’مخلص ویلنٹائن کی طرف سے‘‘ پھر اس پادری کو 14فروری کے دن پھانسی دے دی گئی۔ بس اس دن کے بعد سے یورپ میں ہر سال یہ رواج چل نکلا۔ آج یورپی ممالک اور بدقسمتی سے بعض اسلامی ممالک میں بھی نوجوان لڑکے اور لڑکیاں یہ دن بڑے زور و شور سے مناتے ہیں۔اس موقع پر کارڈ اور خاص طور سے سرخ گلاب کے پھول پیش کیے جاتے ہیں۔
پاکستان میں مغرب سے ویلنٹائن ڈے کی روایت جب عروج پر پہنچی تو محبِ دین، محبِ وطن نوجوانوں نے اسے یوم حیاء کے طور پر منانا شروع کردیا۔ اس روایت کو شروع کرنے کا سہرا اسلامی جمعیت طلبہ کے سر ہے،پاکستان میں پہلی مرتبہ ’’یوم حیا‘‘ منانے کا فیصلہ 9فروری 2009ء کو پنجاب یونیورسٹی لاہور میں کیا گیا۔ ویلنٹائن کے مقابے میں اس روز کو ’’یوم حیا ‘‘ کا نام اسلامی جمعیت طلبہ جامعہ پنجاب کے ناظم قیصر شریف نے دیا ،انہوں نے 9 فروری کو اعلان کیا کہ پنجاب یونیورسٹی میں 14فروری 2009 کو ویلنٹائن کی بجائے ’’یوم حیا ‘‘ منایا جائے گا۔ اگلے سال جب قیصر شریف اسلامی جمعیت طلبہ پنجاب کے ناظم بنے تو انہوں نے ’’یوم حیا ‘‘ کو 14 فروری 2010 کے روز پورے صوبے میں جوش وخروش سے منانے کا فیصلہ کیا اور پھر 2011ء میں پورے پاکستان میں ٰ’’ یوم حیا‘‘ منانے کا سلسلہ چل پڑا جسے اگلے سال یعنی 2012ء سے پوری دْنیا میں باقاعدگی کیساتھ منایا جانے لگا۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ ’’یوم حیا ‘‘ کے بانی قیصر شریف صاحب ہیں جو اس وقت جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات ہیں۔
ملائیشیا کی حکومت نے سرکاری طور پر ویلنٹائن ڈے منانے پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔ ملائشین حکومت کا مؤقف ہے کہ ویلنٹائن ڈے نوجوانوں کو برباد کر کے اخلاقی پستی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ملائیشیا میں 14 فروری کے دن اگر کوئی کسی کو عوامی جگہ پر پرپوز کرتا ہے تو اس کو گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ سال 2010 میں حکومت ایران نے بھی سرکاری طور پر ویلنٹائن ڈے منانے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ ایرانی حکومت نے کہا کہ یہ مغربی ثقافت ہے اور ناجائز تعلقات کو فروغ دیتی ہے۔ اس دن اگر کوئی غیر شادی شدہ جوڑا ڈانس کرتا نظر آئے تو انہیں ایران میں جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب، ازبکستان سمیت چند دیگر ممالک میں بھی ویلنٹائن ڈے سرکاری طور پر نہیں منایا جاتا۔
پاکستان میں بھی جب پرویز مشرف کے آمرانہ دور میں بالخصوص حکومتی سرپرستی میں ہماری اسلامی اقدار کو تاخت و تاراج کرنے کے لیے دیگر خباثتوں کیساتھ ساتھ ویلنٹائن ڈے کو بھی یہاں رواج دیا گیا تو اس کے خلاف 2017ء میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک شہری کی طرف سے پٹیشن دائر کی گئی۔ فریقین کو سْننے کے بعد جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے عوامی سطح پر ویلنٹائن ڈے کی تقریبات کو مسلم ثقافت کے منافی قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی عائد کر دی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے سرکاری سطح پر ویلنٹائن ڈے منانے اور میڈیا پر اس کی تشہیر نہ کرنے کا حکم جاری کیا ۔
شرم و حیا، عفت و عصمت اور پاکدامنی مسلم معاشرے کی پہچان اور اہل اسلام کا طرہء امتیاز ہے جبکہ ویلنٹائن ڈے یوم بے حیائی اور ناجائز و نام نہادمحبت کے غیراخلاقی اظہار کا نام ہے۔ یہ تہوار اسلام کے مضبوط خاندانی نظام کی تباہی و بربادی اور نوجوان نسل کی جنسی بے راہ روی کا سبب ہے۔ یہ تہوار بے حیائی،فحاشی، عریانی، لہو و لعب، میوزک، ناچ گانا، اسراف اور دیگر غیر اخلاقی اور گناہ پر مشتمل ہوتا ہے۔جس کی وجہ سے ہم جنس پرستی، گینگ ریپ وغیرہ کو بڑھاوا ملتاہے۔ لوگ اللہ تعالی کی نافرمانی کے مرتکب ہو کر اللہ کے غضب کو دعوت دیتے ہیں۔قرآن پاک کی سورۃ النور میںاللہ رب العزت کا ارشاد گرامی ہے:
ترجمہ: (بے شک جو لوگ چاہتے ہیں کہ اہل ایمان میں بے حیائی پھیل جائے، ان کے لیے دنیا وآخرت میں درد ناک عذاب ہوگا، اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے)۔
یعنی وہ تمام ذرائع و وسائل جن سے فحاشی وعریانی اور بے حیائی کی اشاعت ہو، بے راہ روی اور اخلاق باختگی کے دروازے کھلیں, ممنوع اورحرام ہیں۔ مسلمان قوم کی اپنی الگ پہچان, اپنا الگ تشخص اور اپنی الگ تہذیب و ثقافت ہے جوکہ مغرب اور مغربی تہذیب سے بہت ممتاز، خوبصورت، جامع اور فطرت کے قریب تر ہے۔ بقول اقبال
اپنی مِلت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
عالمی بے حیائی اور اباحیت پر مبنی ویلنٹائن ڈے کو روکنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو خدانخواستہ مغربی معاشرے میں موجود بے حیائی، فحاشی، عریانی، نکاح کی بجائے آزاد جنسی ملاپ اور نتیجتاً ایچ آئی وی ایڈز جیسے لاعلاج موذی مرض کا تیزی سے پھیلاؤ، ہم جنس پرستی وغیرہ کے منفی اثرات و نتائج ہمارے معاشرے میں بھی تیزی سے فروغ پانا شروع ہوجائیں گے(جس کے آثار کافی حد تک اس وقت پاکستانی معاشرے پر پھیلتے ہوئے نظر بھی آرہے ہیں)۔
ویلنٹائن ڈے کی ترویج کرنے والے سیکولر، لادین عناصر یہ بے بنیاد اور گمراہ کْن تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس کی مخالفت معاشرے میں محبت کی مخالفت ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اسلام ہی محبت کا سب سے بڑا داعی ہے۔اسلام دینِ فطرت ہے۔اسلام معاشرے میں رواداری، محبت، امن و سلامتی کے فروغ پر زور دیتا ہے۔ کس سے اور کیسے محبت کرنی ہے؟ اسلامی شریعت اس حوالے سے مکمل راہنمائی فراہم کرتا ہے:
1 غض بصر(یعنی اپنی نگاہوں کو پست رکھنا): مومنین کی بڑی اہم صفت ہوتی ہے کہ وہ اپنی نگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں اور آنکھوں کی خیانت اور دیگرگناہوں سے بچتے ہیں۔اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں سورۃ النور میں ارشاد فرمایا ہے کہ:
ترجمہ: اے نبی کہہ دیجئے مومن مردوں سے کہ وہ اپنی نگاہوں کو پست رکھا کریں اور اپنے شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں، یہ اْن کے لیے بڑی پاکیزگی کی بات ہے اور جو کام یہ کرتے ہیں اللہ اْن کی خوب خبر رکھتا ہے)۔
2 حفظ فرج (یعنی شرمگاہ کی حفاظت کرنا): مومنین اپنی شرم و حیا اور عزت و عصمت کی حفاظت کرتے ہیں اور اپنے ستر کو کسی غیر محرم کے سامنے نہیں کھولتے۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے سورۃ المومنون میں ارشاد فرمایا ہے :
ترجمہ: (اور وہ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں)۔
3 فروغ حیا (یعنی حیا کو عام کرنا): حیا ایمان کا حصہ ہے اور اس کے بغیر کامیاب زندگی ممکن نہیں ہو سکتی۔ حضور نبی کریمؐ کا ارشاد مبارک ہے :
الحیاء من الایمان۔ (صحیح بخاری:24)
ترجمہ: (حیا ایمان کا حصہ ہے)۔
حیاء صرف بھلائی اور خیر و برکت کا باعث بنتی ہے۔ حیاء انسان کے اندر بہت ساری مثبت صفات پیدا کرکے اْسے انمول موتی کی طرح قیمتی بنا دیتی ہے۔ ایک اور حدیث مبارک کا مفہوم ہے کہ "اگر تم میں حیاء نہ رہے تو پھر جو مرضی کرتے پِھرو۔"
4 اعراض (یعنی جاہلوں سے منہ پھیر کر ان سے بے توجہی برتنا): مومنین جہالت اختیار کرنے والوں کی سرگرمیوں میں شمولیت اختیار نہیں کرتے۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ:
ترجمہ: ( اور وہ لغو (یعنی بے مقصد کاموں) سے اعراض کرتے ہیں)۔
قرآن و حدیث کے مذکورہ بالا حوالہ جات اور ہمارے لئے واضح تعلیمات ہیں جس کی روشنی میں ہر مسلمان مرد و عورت پر لازم ہے کہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دیتے ہوئے معاشرے کے افراد کو بیراہ روی پر ڈالنے والے ویلنٹائن ڈے جیسے بیہودہ، اخلاق باختہ اور غیراسلامی تہوار کی مخالفت اور مذمت کرے ۔