سادہ کھرے اور  سْچّے لوگ

    ٹیکسلا سید انور حسین شاہ کے عْرس پر سائیں جی سے پہلی ملاقات ہوئی۔ حلیم طبع، میٹھی اور پْرخلوص شخصیت کے اندر کوئی ایسا جادو تھا کہ میں ان کی طرف کھنچتا چلا گیا۔ لالہ موسیٰ کے قریب گاگڑی گائوں کے اس زمیندار نے پولیس سروس جوائن کی۔ 40/45 سال قبل یہ بطور سب انسپکٹر تھانہ آر اے بازار راولپنڈی ایس ایچ او تعینات تھے۔نرینہ اولاد کی خواہش لیئے بر ی امام سرکار دعا کے لیے گئے۔ پہلی ہی ملاقات میں اگلوں نے ان کو اپنا بنا لیا اور وہیں پر موجود سید عبداللہ شاہ( نانگا سرکار) کے سپرد کردیا۔ کچھ ہی عرصہ میں چوہدری محمد اسلم کا تبادلہ اسلام آباد پولیس میں ہو گیا۔ اس طرح شاہ صاحب کی خدمت کرنے کا اور زیادہ موقع مل گیا چند ہی دنوں بعد متعلقہ ایس پی نے خوشخبری سنائی کہ آپ کی بطور انسپکٹر ترقی ہونے والی ہے۔ اسی شام شاہ صاحب سے مشورہ کیا۔ ارشاد ہوا جنرل بننا ہے یا انسپکٹر۔اشارہ بہت واضح تھا۔ اگلے ہی دن افسروں کے لاکھ سمجھانے کے باوجود استعفیٰ دے کر سامان سمیت شاہ صاحب کے پاس پہنچ گئے۔ عبداللہ شاہ صاحب کے وصال پر ان کے جسد خاکی کو گائوں لے گئے ، اپنے ڈیرے میں تدفین کی اور کچھ ہی عرصہ بعد خوبصورت مزار تعمیر کیا۔ اس دن سے یہ سائیں محمد اسلم کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ ان کے گائوں میں کئی بار جا چکا ہوں۔ چوبیس گھنٹے لنگر کا اہتمام ہوتا ہے۔ سائیں جی کا فرمانا ہے کہ فقیر کا ڈیرہ / لنگر اپنے گھر سے چلنا چاہیئے۔ اس سادہ درویش کی باتیں بڑی دلچسپ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس شعبے میں بڑے بڑے فنکار اور بہروپیے چھپے بیٹھے ہیں۔اپنی چرب زبانی اور شعبدہ بازی سے سادہ عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں۔ مجھے پیار سے '' راجہ جی '' کہہ کر بلاتے ہیں۔ ایک دن بڑے موڈ میں تھے کہنے لگے ، انسان کو سادہ، کھرا اور سْچا ہونا چاہیئے ،کیونکہ بناوٹ اور کھوکھلا پن جب سامنے آتا ہے تو پھر چھپنے کو کہیں جگہ نہیں ملتی۔لہذا راجہ جی میری اس بات کو پلے باندھ لینا ، بڑے کام آئے گی۔ 
    تقریبا ً 3/4 ماہ قبل راولپنڈی کی ایک ادبی محفل میں ایک صاحب نے بتایا کہ آپ کے آبائی علاقہ ( تحصیل گوجر خان) کے ایک مرزا صاحب ہیں ،بہت پائے کے مصنف ہیں۔ مجھے شدید حیرانگی ہوئی کہ جہاں کی سیاسی ، سماجی اور ادبی محفلوں میں میری ٹھیک ٹھاک رسائی ہے وہاں مرزا صاحب سے ملاقات کیوں نہ ہو سکی۔ چنانچہ ایک دو دوستوں کو فون کرکے مرزا صاحب کے بارے معلوم کرنے کی درخواست کی۔بمشکل آدھ گھنٹہ بھی نہیں گزرا تھا کہ پہلے دوست نے بتایا کہ یہ بشارت محمود مرزا صاحب ہیں۔ گوجر خان سے 5/6 کلومیٹر دور قبصہ بڈھانہ کے ساتھ ایک چھوٹے سے گائوں ڈھڈی سے ان کاتعلق ہے۔ ہلکے سے تعارف میں مزید بتایا کہ سادہ لباس پہنتے ہیں اور خوبصورت سی پگڑی میں ان کی باوقارشخصیت اور نکھر جاتی ہے۔ اتنی ہی دیر میں دوسرے دوست کا فون آیا تووہ کہنے لگے ان کی شخصیت کوسمجھنے کے لئے ایک واقعہ سن لو۔ ایک باراسلام آباد میں ایک کتاب کی تقریبِ رونمائی تھی۔ جہاں صف اول کی ادبی شخصیات موجود تھیں۔ سٹیج پر کم وبیش آٹھ ادیب برا جمان تھے۔ جب مرزا صاحب تقریرکے لیے سٹیج پر بلائے گئے تو چند بڑی شخصیات کچھ سیخ پا ہوئیں۔ منتظمین پر برہم ہوئے کہ ایک ''پینڈو'' کو ہماری موجودگی میں بلانے کی کیا ضرورت ؟ خیر جب مرزا صاحب اپنا اظہار خیال کر چکے تو تقریباً دس منٹ تک تمام سامعین نے کھڑے ہو کر تالیاں بجا کر داد دی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سٹیج سے دو بڑی شخصیات کسی مجبوری کا عذر کرکے غائب ہی ہوگئیں۔ مجھے انہوں نے مرزا صاحب کا فون نمبر بھی دیا اور بتایا کہ فیس بک پر کافی متحرک ہیں۔ اگلے دن میں نے مرزا صاحب کو واٹس ایپ پر ہلکا سا تعارف کراکے بات کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ کچھ ہی دیر میں ان کا فون آگیا۔ دس پندرہ منٹ کی پوٹھواری گفتگو میں یوں محسوس ہوا جیسے نہ جانے ہماری کتنی پرانی شناسائی ہے۔ اس طرح ان سے گاہے بگاہے فون پر بات چیت ہونے لگی۔ فیس بک پر بھی ہمارا ساتھ ہوگیا۔ ان سے ملنے کے لیے بہت مضطرب ، ہر بار وہ کہتے سو بسم اللہ ، بس ایک دن پہلے بتا دینا۔ محترم افتخار احمد وارثی گوجر خان سے ممبر صوبائی اسمبلی رہ چکے ہیں۔ بہت عمدہ ،نفیس اورباذوق شخصیت ہیں ، وہ پہلی بار 1983 ء￿  میں ممبر ضلع کونسل بنے۔میری تب سے ان سے تعلق داری ہے۔ مرزا صاحب کی وارثی صاحب سے بھی بے حد دوستی ہے۔ میں نے مرزا صاحب سے گذارش کی کہ میں جمعرات (10 اپریل)آپ کے پاس آنا چاہتا ہوں۔ یہ پروگرام جب وارثی صاحب کے علم میں آیا تو انہوں نے حکم دیا کہ لنچ میرے پاس ہوگا۔ میں طے شدہ پروگرام کے مطابق مرزا صاحب کے پاس پہنچا۔ مرزا صاحب سے مل کر ، ان کی سادگی اور خوبصورت شخصیت دیکھ کر یہ اندازہ ہی نہیں ہو رہا تھا کہ اس عظیم شخص کی اب تک چار کتابیں ، مقدمات و نظرات، چوپان اور جہان ، مطالعات و تاثرات اور یاد باد مارکیٹ میں موجود ہیں پہلی تین کتابوں پر ان کی تصویر تک شائع نہ ہوئی البتہ چوتھی کتاب میں دوستوں کے پْر زور اصرار پر تصویر چھپوائی۔ ہم وہاں سے سیدھے وارثی صاحب کے گھر پہنچے۔ ایک دن قبل ان کے پائوں میں کچھ چوٹ آگئی تھی مگر اس کے باوجود انہوں نے گرمجوشی سے ہمارا استقبال کیا۔خوب گپ شپ ہوئی اور پْرتکلف کھانا سیر ہو کر کھایا۔ گفتگوکا محور ادب ، کلچر ، اصلاحِ قلب اور لوگوں کی خدمت تھی۔ دونوں شخصیات کے خلوص ، محبت اوردردِ دل دیکھ کر مجھے سائیں جی بہت یاد آئے جو پلے باندھنے کے لیے بار بار ایک ہی بات کہتے تھے کہ انسان کو سادہ ، کھرا اور سْچا ہونا چاہیئے۔ 
    طویل عرصے کے بعد ایسے دو انسانوں سے ملنے ، بات چیت کرنے اور سیکھنے کا موقع ملا۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ مرزا صاحب اور وارثی صاحب کو صحت کاملہ عطا فرمائے۔ خوش، شاد اور آباد رکھے۔ کالم کا اختتام مولانا رومی کے ان اشعار پر : 
    پر دہ آنکھوں سے ہٹانے میں بہت دیر لگی
    ہمیں دنیا نظر آنے میں بہت دیر لگی 
    نظر آتا ہے جو ، ویسا نہیں ہوتا کوئی شخص
    خود کو یہ بات بتانے میں بہت دیر لگی

ای پیپر دی نیشن