فلسطین اور مشرق وسطیٰ

”عرب سپرنگ“ کے بعد انتہائی اہم تبدیلی ۔ مشرق ِ وسطیٰ میں زلزلہ جیسی کیفیت ہے ۔ لمحہ بہ لمحہ حالات بدلتے جار ہے ہیں۔ شام کی صورتحال نہ صرف پورے ”ریجن “ بلکہ عالمی سطح پر بھی بہت بڑی بڑی تبدیلیوں کا باعث بنے گی ۔ کیا سری لنکا۔ بنگلہ دیش اب شام کی صورتحال عوامی جدوجہد کی کامیابی کی علامتیں ہیں ؟؟ یقینا ہر ملک کے عوام اپنی پسند کی حکومت قائم کرنے کا کُلی اختیار رکھتے ہیں بلاشبہ عوامی رائے کے احترام میں ہی ملکی سلامتی کا دارومدار ہے۔ بے چینی سیاسی ہو یا پھر معاشی ۔ سماجی اپنے اثرات ضرور مرتب کرتی ہے۔ چاہے دہائیاں بیت جائیں ۔ آدھی سے زائد دنیا پر اسوقت جنگی اثرات چھائے ہوئے ہیں۔ قتل و غارت ۔ بدامنی ۔ قبضہ گیری و طمع پرستی ۔ سب حالات ایک آدھ ماہ کا نتیجہ نہیں۔ دہائیوں پرانی سازشیں ۔ پلاننگ۔ مداخلت کے نتائج ہیں جن کا اسوقت ”مشرقِ وسطیٰ “ اور ہم سامنا کر رہے ہیں ۔ ”53سالوں“ پر محیط ”اسد خاندان“ کا اقتدار ختم ہوگیا۔
 دنیا کی ہر چیز کو زوال ہے چاہے حکومت ہو یا ظلم جبر ۔ سفاکیت جب عروج کو پہنچتے ہیں ۔ اُسی لمحہ گہری کھائیاں اُن کا نصیب بن جاتی ہیں ۔ ”پاور بروکرز“ کی چالیں ۔پروگرامز بظاہر تو کامیاب ہوتے رہے ہیں مگر اب دِکھائی دیتا ہے کہ بربریت ۔ سفاکیت کی رد کی تیاریاں ضرور ہونگی۔ اسلامی ممالک کو اب لازمی طور پر ایک جھنڈے تلے متحد ہونا پڑے گا۔ اب ضرورت نہیں مجبوری ہے۔ ”عظیم تر اسرائیل“ کا ایجنڈہ پوشیدہ راز نہیں رہا اور نہ عزائم ۔ فلسطین سے لبنان تک کی تفصیلات سمجھانے کے لیے کافی ہیں ۔
 سب مسلمان خطرے میں ہیں اتفاق کی کمی کی وجہ سے ۔گھنٹوں میں سرکاری افواج غائب ہو گئیں ۔ افراتفری کا عالم ہے ایسے حالات میں جبکہ متحارب قوتیں ایک سے زائد ہوں تو لُوٹ مار۔ آپا دھاپی کے مظاہر عام ہوتے ہیں۔” صدر ٹرمپ“ کے ”بشارالاسد“ کے متعلق روسی موقف کو معمولی نہیں لینا چاہیے اندازہ ہے کہ روس سمیت خطہ میں موجود قوتیںاب غالب آنے والی قوت سے معاملہ کرنے میں دلچسپی لیں گی۔ ایک وقت آجاتا ہے کہ انسان اپنے پسندیدہ ”پتے“ بھی پھینکنے میں لمحہ کی تاخیر نہیں کرتا جب اُسے مکمل ہار کا یقین ہو جائے یہی صورتحال شام۔ اردگرد ممالک میں ہے ۔ 
پہلے صدر ”بشار الاسد“ کی گمشدگی ۔ بلاکت کی افواہیں گرم ہوئیں پر شکر ہے کہ بحفاظت روس پہنچ گئے۔ عراق کے حالات ابھی تک کِسی فریق کے قابو میں نہیں آسکے ۔ ایک سے زائد باہم متصادم قوتیں کبھی بھی امن قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہیں۔ ”عالمی طاقتوں “ کو امن۔ آزادی کے نام نہاد جھنڈے بلند کرنے کی اب ضرورت نہیں۔ دنیا امن کی خواہاں ہے۔ نسل انسانی کو اب خون نہیں ترقی ۔ سکھ کی ضرورت ہے۔ ہر قوم کو اپنے مقدر کے فیصلے خود کرنے دیں آخر کب تک خودمختاری کے لبادے میں قوموں کے تختہ و تاج اُلٹائے جائیں گے۔ ”اقوام متحدہ“ کو قیام امن کی بنیادی روح کے مطابق اپنے فرائض ادا کرنے کی آزادی دیں۔ یہی اصل آزادی ہے جس مقصد کے تحت اِس ”تنظیم“ کو قائم کیا گیا تھا اُسے اپنے چارٹر کے تحت خود مختاری دیں۔ قیام امن کے قائم درکار طاقت ۔ مدد ۔ تعاون و عطیات فراہمی میں دلچسپی لیں نہ کہ دنیا کو سکریپ بنانے میں ۔ 
مشترق وسطیٰ کے تلب میں بحرانوں کی سرزمین ”فلسطین“ کو ”طوفانوں کا مرکز“ کہاجائے تو بے جا نہیں ہوگا۔ بحران کی ابتداء19ویں صدی کے آخری عشرے میں اس وقت ہوئی جب ”تھیورڈ ہرزل “نے 1897 میں فلسطین کو یہودی ریاست بنانے کی تحریک کا آغاز کیا۔ پہلی یہودی کانگریس میں فیصلہ ہوا کہ آج سے تمام صیہونیوں کا واحد مقصد فلسطین میں یہودی مملکت کا قیام وہو گا۔ یہودی تحریک کے فروغ میں پہلی جنگ عظیم نے اہم کردار ادا کیا۔ جب انگریزوں نے شریف مکی سے تعاون و حمایت چاہی تو اس نے شر ط لگائی کہ جنگ کے بعد ان کی آزادی کا اعلان کر دیا جائے۔ 
برطانیہ نے جنگ جیتنے کیلئے یہ شرط منظور کر لی اور تھوڑے عرصہ بعد عرب ممالک کی سرحدوں کا تعین کر دیا مگر مسئلہ یہ ہوگیا کہ آیا فلسطین بھی ان ممالک میں شامل ہے یا نہیں مگر عیاری کے ساتھ برطانیہ کے منسٹر بالفور (وزیر خارجہ) نے2نومبر 1917 کو مقیم برطانیہ یہودی فیڈریشن کے صدر لارڈ داتمس کو خط لکھا کہ ہم فلسطین میں یہودی قوم کے ایک الگ وطن کے قیام کو شرف پسند دیگی بخشتے ہیں ازاں بعد یہی خط ”اعلان بالفور“ کہلایا ۔ اس کے بعد یہودی کھلم کھلا فلسطین جانا شروع ہو گئے۔ برطانیہ نے عربوں و یہودیوں کے مابین شدت اختیار کرتے تنازعات کے خاتمہ کے لئے کئی بار کوششیں کیں مگر ہر کوشش عربوں کو کمزاور اور یہودی نسل کو مضبوط کرتی گئی۔ دلوں میںکھوٹ۔ نیتوں میں فتوراور دماغوں میںبغض مسلم پنہاں تھا۔ جنگ کے فوری بعد نازی کمیپوں سے جہاز بھر بھر کر یہودی فلسطین لائے گئے اور 75ہزار کی آبادی دو لاکھ تک پہنچا دی۔ اپریل 1947 میں مسئلہ یواین او میں پیش کیا گیا۔ جنرل اسمبلی نے مسئلہ کے حل کے لئے گیارہ رکنی کمیٹی بنا کر گویا مسئلہ کو کھوہ کھاتے میں ڈال دیا۔ کیونکہ ساتھ ہی دو سب کمیٹیاں بھی بن گئیں ۔ ایک کمیٹی کے صدر پاکستان کے سر ظفر اللہ خان بنے۔ نومبر میں ہی جنرل اسمبلی نے کمیٹیوں کی رپورٹ پر غور کے بعد فلسطین کو تین حصوں (یہود علاقہ ۔ عرب علاقہ۔ بین الاقوامی علاقہ) میں تقسیم کی منظوری دیدی ۔ اس کے ساتھ ہی ساز باز کر کے اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا۔ نتیجہ عرب یہودی جنگ کی شکل میں ظاہر ہوا۔ 1949 میںجنگ بندی تو ہوگئی مگر معاملہ حل نہ ہوسکا۔
شام میں حالات بہت بگڑتے جار ہے ہیں۔ نہ امن ہے نہ خوراک ۔ انتہا درجہ کی بدقسمتی ہے کہ دنیا کے سب سے زائد وسائل آبادی کے باوصف ہر جگہ مسلمان مار کھاتے نظر آئے ہیں۔ بچپن سے لیکر اب تک مناظر دل و دماغ پر نقش ہو چکے ہیں۔ آزادی دلانے کے نعروں نے ہمیشہ مفتوحہ اقوام کو (زیادہ تر مسلمان) پہلے گھر۔ معاش سے محروم کیا پھر راشن ۔ پانی سے۔ کبھی بھی یہ مناظر بھول نہیں پائے لوگوں کو خوراک کے لیے لمبی لائنوں میں کھڑے دیکھنا َ ۔ کھانے کے لیے امدادی تنظیموں ۔ فاتح اقوام کے پیچھے بھاگتے ہوئے دیکھنا ۔ اب مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ الفاظ سے ہٹ کر عمل کا راستہ اپنا لیں۔ سرگرمی کے ساتھ اپنے مفادات کا تحفظ کریں۔ اکٹھے ہو جائیں ۔ اپنی قوتوں کو از سر نو منظم کریں ۔ تنظیم نو کی اشد ضرورت ہے۔ اپنے وسائل کو اپنے ممالک میں واپس لاکر محفوظ کریں۔ اپنی قوموں کو نئی ٹیکنالوجی اور جدید تعلیم کی طرف بعذریعہ قانون (لازمی تعلیم) لائیں ۔ متحد۔ متفق ہونے کا واحد یہی نکتہ ہونا چاہیے۔ تمام ”مسلمان ممالک“ کا تحفظ ۔ سلامتی ۔ امن کا قیام معیشت کی بحالی اور مضبوطی ۔ قرضوں سے نجات ۔ اَِسی میں سب کی فتح ہے۔

ای پیپر دی نیشن