ہمارا شعبہ صحت اپنا الگ کلچر رکھتا ہے،ادویات کی فراہمی سے لیکرمریض کی عیادت تک اس کے پیمانے مختلف ہیں۔فی زمانہ جہاں ہر شعبہ ہائے زندگی میں تبدیلیاں آرہی ہیں انسانی خدمت کا یہ شعبہ کیسے اِن سے مبّرا ہو سکتا ہے،بنیادی مراکز صحت سے لیکر بڑے بڑے ہسپتال سرکار کی زیر نگرانی میںخدمات انجام دے رہے ہیں، لیکن بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر ہر مریض کی ضروریات پورا کرنا محال ہوتا جارہا ہے، اسکی ایک وجہ تو وسائل کی کمی ہے،جس کا فائدہ ڈاکٹرز کی ایک کلاس نے اُٹھا کر پرائیویٹ سیکٹر میں بڑے بڑے شفاخانے تعمیر کر دیئے ہیں جس میں صاحب ثروت افراد علاج کروانے کو لازم خیال کرتے ہیں،مخیّر حضرات نے بھی دُکھی اِنسانیت کی مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے ٹرسٹ کے زیر اہتمام بھی کچھ ہسپتال بنا رکھے ہیں جہاں مڈل کلاس سے وابستہ مریض علاج معالجہ کرواتے ہیں،تحقیق کے عمل نے اس شعبہ میں بھی سپیشلا ئزیشن کی تعلیم کو آگے بڑھایا ہے۔ قریباً ہر اِنسانی عضو کا الگ الگ معالج ہونا اب وقت کا تقاضہ ہے۔ ان کی محدود تعداد نے ان کی اہمیت کو دو چندکر دیا ہے۔ سرکاری شفاخانوں میں اِن کی ہر وقت موجودگی ممکن نہیںبنائی جاتی،چھوٹے شہروں میں تو یہ خال خال ہی میّسر آتے ہیں، اس لئے ضلعی مقامات پر قائم ہسپتالوں میں عام مرض ہی کا علاج کیا جاتا ہے جبکہ کسی خاص مرض کے مریض بڑے شہروں میں ریفر کر دئیے جاتے ہیں، جہاں سہولیات میّسر ہوتی ہیں۔ مریضوں کی بھاری بھر کم تعداد کی بدولت ہر مریض پر توجہ مرکوز کرنا ڈاکٹر کے بس کی بات نہیں ہوتی، اس لئے بعض اوقات ان کے لواحقین کے صبر کا پیمانہ لبریز بھی ہو جاتا ہے۔ اسکی وجہ بسا اوقات ڈاکٹرز نہیں ہوتے بلکہ انتظامی اُمور ہوتے ہیں،بڑھتے ہوئے شعبہ جات کے باعث اب کسی ڈاکٹر کیلئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ طبّی اور انتظامی کام بیک وقت انجام دے،اس لئے بڑے شفاخانوں میں اس مقصد کیلئے الگ الگ ایڈ من تعینات کیے جاتے ہیں۔عالمی سطح پر تو ڈاکٹرز پر سے کام کا بوجھ ہٹانے کیلئے الگ سے فارماسسٹ، ماہر غذایات تعینات کے جاتے ہیں،ہمارے ہاں بھی نیاڈرگ ایکٹ جزوی طور پر نافذالعمل ہے،بیماریوں کی بڑھتی تعداد اور غذائی مشکلات اور اس سے پیدا بیماریوں کی بدولت ہسپتالوں میں فارماسسٹ اور غذائی ماہرین کی موجودگی اب لازم ہو جائے گی، جس سے ڈاکٹر کو بھی ریلیف ضرور ملے گا۔اس ضمن میں ناگزیر ہے کہ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل طلباء وطالبات کو بھی ہاؤس جاب یا اپرنٹس شپ کی طرز پر ٹریننگ دے ۔ کم از کم دیہاتی علاقہ جات میں ملازمت فراہم کی جائے تاکہ وہاں کی آبادی کو علاج کیلئے مستند افرادی قوت مل سکے اور انھیں عطائی معالجین سے نجات ملے۔
گزشتہ دنوں ایک دوست کو اللہ تعالیٰ نے بیٹے کی نعمت سے نوازا، پرائیویٹ ہسپتال میں زچہ بچہ موجود تھے۔ نومولود کی صحت کے مسائل کے پیش نظر پیدائش کے بعد بچے کو چلڈرن ہسپتال لے جانا پڑا،جو مشکلات انھیں در پیش تھیں،انکو کالم کے ذریعہ متعلقہ حکام کے نوٹس میں لانا اس لئے لازم ہے تاکہ اصلاح کا کوئی پہلو نکل آئے۔اِنکا موقف تھا کہ عمومی طور پر بچے ملتان کے ہسپتالوں کے علاوہ جنوبی پنجاب سے بھی ایمرجنسی کی صورت میں اِس شفاخانے میں لائے جاتے ہیں۔ یہ جنوبی پنجاب کا واحد بڑا قابل بھروسہ ادارہ ہے،لیکن داخل ہوتے ہی پرچی لانے کا حکم صادر ہوتا ہے، پریشانی کے عالم میں یہ مرحلہ والدین کیلئے بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے، بالخصوص اِس وقت جبکہ ایک بڑی قطار لواحقین کے سامنے ہو،جب تلک باری آتی ہے بچے کی تکلیف مزید بڑھ جاتی ہے، چیک اپ کا اگریہ مرحلہ طے ہو جائے تو وارڈ میں داخلہ کیلئے پھر سے پرچی بنوانا پڑتی ہے،اس کرب کا اندازہ وہی کر سکتا ہے جو اس ’’پل صراط‘‘ کو عبور کرتا ہے،لہٰذا بہتر یہ ہے کہ سب سے پہلے بچے کے علاج کو فوقیت دی جائے دفتری کارروائی بعد میں نمٹا لی جائے،یا اسکا قابل قبول حل نکالا جائے جس سے بچے کا علاج متاثر نہ ہو۔
ایک اور مسئلہ بھی قابل توجہ ہے،وہ یہ کہ نومولود بچے جن کو آئی سی یو میں داخل کیا جاتا ہے،انکی فیڈ کیلئے اِنکی مائوں کو وارڈ میں جانا پڑتا ہے،وہاں ا ِنکے قیام کی کوئی مناسب جگہ نہ ہے، یہ واقع بھی دوسری منزل پر ہے جہاں جانے کیلئے سیڑھیوں سے گزرنا پڑتا ہے،ذرا تصور میں لائیں زچگی کے مرحلہ سے گذرنے والی نومولود کی ماںجس کا آپریشن بھی ہوا ہو، اس کیلئے یہ مرحلہ کتنا دشوار گزار ہوگا؟دوسری بڑی انتظامی کمزوری یہ ہے کہ اس منزل پر نہ تو لفٹ نصب ہے نہ ہی واش رومز ہیں۔ضروری حاجت کیلئے بار بار نیچے آنا اور مدر فیڈ کیلئے پھر دوسری منزل پر جانا کس قدر مشکل کام ہے کیا یہ تکلیف دہ معاملہ انتظامیہ کے علم میں نہیں ہے؟اگریہ تصورکرلیا جائے کہ مالی وسائل کی کمی ہے اس کو پورا کرنے کیلئے سماج کے مخیّر حضرات کو دعوت دی جائے۔ ہمارا گمان ہے کہ اگروہ اس کو اپنی خوش بختی خیال کریں گے۔چلڈرن ہسپتال جنوبی پنجاب کا بڑا ہسپتال ہے اس پر ورک لوڈ بھی زیادہ ہے،اسلئے ممکن ہے کچھ انتظامی بد نظمی ہوگئی ہو، تاہم علاج معالجہ میں ڈاکٹرز کی خدمات لائق تحسین ہیں، راقم کو بھی کسی نہ کسی حوالہ سے یہاں جانے کا اتفاق ہوا ہے،اس ادارہ پر سے لوڈ کم کرنے کا ایک راستہ تو یہ ہے کہ ہر ضلعی مقام پر معیاری بچوں کا شفاخانہ ہو تاکہ کسی مریض بچے کو لمبی مسافت کا دُکھ نہ اٹھانا پڑے۔ ہر ڈسٹرکٹ ہسپتال میں بچوں کا وارڈ بھی ہوتا ہے لیکن وہاں کی انتظامیہ اِنکو چلڈرن کمپلیکس بھیجنے ہی میں اپنی عافیت خیال کرتی ہے،تاہم بچوں کی صحتیابی کا راستہ اِس شعبہ کے میزانیہ میں اضافہ سے ہو کر گزرتا ہے تاکہ نومولود کی ماں کو حالت زچگی میں دوہری اذیت سے نہ گذرنا پڑے۔نجانے عوامی نمائندگان اپنی مراعات کیساتھ صحت کے بجٹ میں کب اضافہ کی نوید سنائیں گے؟