قومی ترقی میں وزیراعظم اور آرمی چیف کی مشترکہ کاوشیں۔  

                     وزیراعظم محمد شہباز شریف کی حکومت کو دیکھتے ہی دیکھتے ایک برس بیت گیا اور الحمدللہ دوسرے برس میں داخل ہو گیا وزیراعظم شہباز شریف نے جن حالات میں حکومت سنبھالی تھی اس ملک کن حالات سے دوچار تھا اور اس وقت ایک ایک لمحہ کس قدر وزنی تھا اور ہر وقت ملک کے دیوالیہ ہونے کے خطرات سر پر منڈلاتے رہتے تھے جبکہ حکومت کے سیاسی مخالفین ہر لمحہ فرماتے تھے کہ ملک دیوالیہ ہو چکا ہے اور رسمی طور پر اعلان باقی ہے لیکن وزیراعظم شہباز شریف نے جس پر اعتماد انداز سے قوم سے وعدہ کیا کہ انہیں رب العزت کی ذات پر مکمل اعتماد ہے اور بھروسہ ہے اور اسی بھروسہ کے تحت نظام حکومت چلانے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے انہوں نے بار بار قوم کو یقین دلایا کہ وہ مخالفین کی افواہوں کو نظرانداز کر دیں اور اس بات پر یقین رکھیں کہ ملک دیوالیہ نہیں ہو سکتا بلکہ ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے اور بہت جلد ترقی کے معاملات نظر آئیں گے اور الحمدللہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک برس بیت گیا اور اللہ پاک کے فضل و کرم سے ملک نہ صرف دیوالیہ ہونے سے بچ گیا بلکہ ملک تیزی کے ساتھ ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے اور اس سلسلے میں عالمی ادارے اور عالمی برادری بھی پاکستان کی موجودہ حکومت کی کارکردگی کو قابل تحسین قرار دے رہی ہے اور جہاں تک عالمی ادارے کی جانب سے قرضوں کا تعلق ہے تو نہ صرف پاکستان بلکہ متعدد ممالک اپنی ضرورت کے مطابق عالمی ادارے سے قرضے حاصل کرتے ہیں اور اپنی ضروریات کو پورا کرتے ہیں اور یہ عالمی ادارہ بھی اسی مقصد کے لیے قائم ہے اور ان قرضوں کے حصول کیلئے سپہ سالار پاکستان محترم سید عاصم منیر صاحب چیف آف آرمی سٹاف نے جس انداز سے ملک کی معاشی حالت کو دلدل سے نکالنے اور ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے جو کردار ادا کیا وہ قابل تحسین ہے اور نہ صرف قوم انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتی  ہے  بلکہ عالمی سطح پر انکے اس کردار کو سراہا گیا اور اگر ہم ملک کے ماضی پر نظر دوڑائیں تو یہ بات  روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ایسے حالات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور بہت آسانی کے ساتھ مختب نمائندوں کو نااہلی کا سرٹیفکیٹ جاری کرتے ہوئے ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا جاتا
لیکن ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ الحمدللہ سپہ سالار پاکستان متعدد بار یہ واضح کر آئین پاکستان اور پارلیمنٹ کا نہ صرف احترام کرتے ہیں بلکہ اس کا بھرپور انداز سے دفاع بھی کیا جا ئے گا اس پر حکومت مخالفین کے علاوہ پوری قوم کی طرف سے انہیں خراج تحسین پیش کیا گیا اور ہم امید کرتے ہیں کہ جس انداز سے آئین پاکستان اور پارلیمنٹ کو مضبوط بنانے اور ملک و قوم کو ترقی و خوشحالی سے ہمکنار کرنے کے لیے سپہ سالار پاکستان جہد مسلسل میں مصروف ہیں تو اس بات کو ذہین نشین کر لینا چاہئے کہ وہ دن دور نہیں کہ جب ہما را وطن پاکستان ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے دنیا بھر میں اپنا کھویا ہوا وقار بھائی بحال ہو جائے گا اور وہ مقام بھی حاصل کر لے گا کہ جس کا یہ ملک حقدار ہے تاہم اس سلسلے میں منتخب نمائندوں پر اور دیگر سیاسی لیڈروں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں اور اپنے ہر قسم کے ذاتی اور سیاسی مفادات سے بالاتر ہو ملکی ترقی کے مشن میں حصہ لینے کے لئے اپنا کردار ادا کریں کیونکہ اسی میں خوشحالی وابستہ ہے اور یہ بات بھی ذہن نشین کر لیں کہ ہماری کوتاہی ہمیں کسی اندھیرے طوفان سے دوچار کر سکتی ہے اور پھر تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ملکی ترقی اور اس کے معاشی حالات کو درست سمت پر گامزن نیز عالمی ادارے اور دیگر ممالک کے سابقہ قرضوں کی ادائیگی اور نئے قرضوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے وزیراعظم شہباز شریف جس انداز سے جہد مسلسل میں مصروف ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں انہوں نے حکومت سنبھالنے کے بعد کراچی میں صنعت کاروں اور بڑے بڑے سرمایہ کاروں سے خطاب کرتے ہوئے انہیں التجا کی کہ ملک کو درپیش مشکلات سے نکالنے کیلئے تعاون کریں اور اپنی تجاویز پیش کریں تاکہ ہم باہمی افہام و تفہیم کے ذریعے ملکی معیشت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا جائے لیکن میری ناقص معلومات کے مطابق وزیراعظم کی اس التجا کے نتائج زیرو نکلے اور اس سلسلے میں سابقہ عمران خان حکومت کے خاتمے کے بعد محترم شہباز شریف نے جب حکومت سنبھالی تھی توانہوں نے اس دوران بھی ایک سے زائد مرتبہ کراچی کے صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں سے خطاب کرتے ہوئے ایسی التجا کی تھی لیکن اس وقت بھی نتائج زیرو تھے اس سلسلے میں وزیراعظم پاکستان جناب شہباز شریف صاحب سے انتہائی معذرت کے ساتھ یہ التجا کرتے ہیں کیا انہوں نے ملکی ترقی کیلئے صنعت کاروں اور نامور سرمایہ کاروں کو مخصوص کر رکھا ہے اور اگر اس سلسلے میں ملک کا کوئی عام شہری کردار ادا کرنے کی پیشکش کرے تو اسے قبول کرنے کی بجائے نظر انداز کیوں کر دیا جاتا ہے اور اگر یہی سلسلہ کار جاری رہا تو خدشہ ہے کہ عالمی برادری سے قرضوں کے حصول کیلئے سلسلہ کار جاری رہے گا اور پھر ان قرضوں کے سود اور انکی اقساط کا سلسلہ جاری رہے گا اور یہ ملک و قوم کا مقدر بن جائے گا اور یہ سلسلہ ملک و قوم کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے اور آئندہ نسلیں کبھی بھی معاف نہیں کریں گی اور اس کا ثبوت ملک بھر میں قائم وزارت خارجہ کے باہر لمبی لمبی قطار وں سے مل سکتا ہے یہ وہ لوگ ہیں جو صبح فجر کی نماز سے قبل قطار میں کھڑے ہو جاتے ہیں او ر بیرون ممالک روزگار کے نئے جانے کیلئے اپنے کاغذات کی تصدیق کراتے ہیں اور یوں ملک سے ہنر مند افراد اور تعلیم یافتہ لوگوں کی بڑی تعداد بیرون ممالک چلے جائیں گے تو ملک کی تعمیر و ترقی کا کردار کون لوگ کریں گے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے ان حالات سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے اور ملک کو حقیقی معنوں میں ترقی و خوشحالی سے ہمکنار کرنے کے لیے وزیراعظم شہباز شریف اور سپہ سالار پاکستان جناب سید عاصم منیر صاحب کی خدمت میں ایک استدعا ہے کہ اگر وہ پسند فرمائیں اور یہ چاہتے ہیں کہ ملک بھر اشیائے ضروریات کی قیمتوں میں 25سے 50 فیصد تک کمی ہو جائے اور یہ مستقل بنیادوں پر ہو جائے اور مجوزہ منصوبے کی تکمیل کے لیے صرف 4 سے 6 ہفتے درکار ہیں۔ مجوزہ منصوبے پر عمل درآمد کے لیے حکومت کو کسی قسم کے اضافے اخراجات نہیں کرنے پڑیں گے۔ 
اسی طرح پٹرول کی قیمتوں میں 30 سے 50 فیصد کمی واقع ہو سکتی ہے اور اس کیلئے صرف 6سے 8 ہفتے کی مدت درکار ہے۔ مزید برآں معلوم ہوا ہے کہ حکومت اپنے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے لیے ملکی بنکوں سے قرضے حاصل کرنے کے لیے پروگرام کر رہی ہے  اس ضمن میں عرض ہے موجودہ ترقیاتی منصوبوں اور اس کے علاوہ نئے منصوبوں کیلئے اندرون ملک سے بہت بڑی رقم مل سکتی ہے اور اس رقم پر کسی قسم کی اضافی رقم نہیں دینی پڑے گی بلکہ اس کی واپسی بھی نہیں ہو گی اور  رقم صرف 3 ماہ سے کم مدت میں مل سکتی ہے۔  علاوہ ازیں بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لئے بیرون ممالک بہت بڑی رقم مستقل بنیادوں پر مل سکتی ہے اور اس رقم پر کسی قسم کا کوئی سود نہیں ہو گا بلکہ اس کی واپسی بھی نہیں ہو گی اور اس سے بیرونی ممالک کے قرضوں سے چھٹکارا حاصل کرنے میں مدد مل سکتی ہے اور ان سب کے علاوہ ملک بھر میں تعلیم یافتہ افراد کو صرف 3 ماہ  کے اندر روزگار فراہم کیا جائے گا اور اس سلسلے میں حکومت کو اخراجات کی ادائیگی نہیں کرنے پڑے گی۔یہ سب کچھ حیران کن ہے اور کوئی بھی شخص اس پر یقین نہیں کرے گا  تاہم وزیر اعظم پسند فرمائیں تو بندہ حاضر ہے اور کسی تاخیر کے بغیر مجوزہ منصوبے پر عمل درآمد کیا جا سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن