ہم اپنے شہر راولپنڈی کینٹ میں 6 ستمبر کی سب سے بڑی تقریب اور اس کے مہمانان خاص وزیراعظم اور سپہ سالار کی بات بعد میں کریں گے پہلے ان چند امور کی بابت اظہار خیال کرلیں۔ یہ امور یوم دفاع پاکستان سے جڑے ان لمحات سے مرقع ہیں جن پر فخرو انبساط کے کئی مینار تعمیر کئے جاسکتے ہیں۔ چھ ستمبر کی صبح' دوپہر' شام اور رات کو قوم نے جس جذبے اورجس عقیدت وحشمت سے یوم پاکستان منایا اس کے اظہار کیلئے الفاظ ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہیں۔ بچے' بوڑھے' جوان اور خواتین کے ساتھ اقلیتوں نے جس محبت اور عقیدت کا مظاہرہ کیا وہ جذبے پڑوسی ممالک میں ہی نہیں دنیا بھر میں نایاب ہیں۔ میرا وطن 25 کروڑ پاکستانیوں کا ایسا گلدستہ ہے جس کی خوشبو سے وطن کے درودیوار مہک رہے ہیں۔ پاکستان میں رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی تعداد پانچ سو کا ہندسہ عبور کر چکی ہیں۔قومی ایام میں پاکستانی ہر سطح پر پارٹی وابستگی سے بالا ہو کر وطن اورقوم سے اپنی بے مثال وبے مثال محبت کا ثبوت دیتے ہیں۔ یہی وہ جذبے ہیں جن پر انسانی رویوں کی تحقیقات کرنے والے حیران ہیں یہی وہ جذبات ہیں جنہوں نے 25 کروڑ مختلف نسل اور مذاہب کے لوگوں کو وطن پرستی کی محبت اور ایک پرچم کے سائے تلے متحد رکھا ہوا ہے
اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں، ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاںہیں ہم ایک ہیں، ہم ایک ہیں
چھ ستمبر کی رات 8بجے جی ایچ کیو راولپنڈی کی یوم دفاع کی خصوصی اور غیر معمولی تقریب میں شہداء وطن کو خراج عقیدت اور غازیوں کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ وزیراعظم میاں نوازشریف اور سپہ سالار جنرل سید عاصم منیر نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ پاک فوج پاکستانی سرحدوں کی حفاظت سے غافل نہیں۔ مادر وطن کے ایک ایک انچ کا دفاع کرنا آتا ہے، ان شاء اللہ فوج اور حکومت قوم کی توقعات پوری کرنے میں آخری حد تک جائے گی… یہ درست ہے کہ بھارت نے کبھی بھی پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کیااور ہمیشہ اسے پامال کرنے کے منصوبے بناتا رہا۔انہی منصوبوں کی تکمیل کے طور پر 6ستمبر 1965ء کو پاکستان کی سرحدوں پر رات کی تاریکی میں حملہ کر دیا۔بین الا قوامی ضابطوں کو روند کر لاہور اور سیالکوٹ کی سرحدوں پر بزدلانہ حملہ کرتے وقت بھارت یہ بھول گیا تھا کہ سوئے ہوئے شیر کو جگانے کا انجام کیا ہوتا ہے۔فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے گرجدار آواز میں بھارتی حملے کو بزدلانہ اقدام قرار دیا اور قوم کو دفاعی جنگ کیلئے آمادہ کرتے ہوئے اپنے خطاب میں کہا''ہم وطنو!بھارت کو معلوم نہیں کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے۔پاکستان کے عوام جن کے دلوں میں لا الہ الا للہ کی صدائیں گونج رہی ہیں اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیںگے جب تک دشمنوں کی توپیں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاموش نہیں ہو جاتیں''اس اعلان کے بعد ہر شخص بھارتی حملے کا منہ توڑ جواب دینے کیلئے کمر بستہ ہو گیا۔پوری قوم وطن عزیز کے وقار اسکی بقاء و حفاظت اور ملت کی عزت و ناموس کی خاطر ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند دشمن کے مقابلے میں ڈٹ گئی۔ولولہ انگیز قیادت نے ارض پاکستان کے محافظوں اور شہریوں کے حوصلے بلند کر دیئے جس کے نتیجے میں مجاہدین کے ساتھ ساتھ شہریوں نے بھی دشمن کو مار بھگانے میں اہم کردار ادا کیا۔شاعروں نے اپنے کلام سے محافظوں کے حوصلے بلند کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔گلی گلی،کوچے کوچے اور ہوائوں کی لہروں پر یہ صدائیں گونج رہی تھیں''میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں۔جدھر نظراں پاویں ویری مار نساویں''ہر کوئی من تن دھن ،ملکی سلامتی پر قربان کرنے کیلئے بیتاب دکھائی دیتا تھا۔ملک کے اندر عوام دفاعی جنگ لڑ رہے تھے اور سرحدوں پر فوجی جوان دشمن کو بری طرح شکست دے رہے تھے۔دشمن نے لاہور پر قبضہ کی خوشخبری سنائی تھی مگر اْسے یہ معلوم نہ تھا کہ جہاں میجر عزیز بھٹی شہید جیسے مجاہد ہوں وہاں بھارتی بھگوڑے اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب کیسے ہو سکتے ہیں۔جوانوں نے بی آر بی نہر کے پل کو ڈائنامیٹ کرکے نہ صرف دشمن کی پیش قدمی کو روک دیا بلکہ اْسی کے علاقے میں بہت پیچھے تک دھکیل دیا۔اسی موقع پر میجر عزیز بھٹی نے شہادت پائی تھی۔سیالکوٹ کے محاذ پر مجاہدوں نے اپنے سینوں پر بم باندھے اور ٹینکوں کے نیچے لیٹ کر دشمن کے حملے کو پسپا کر دیا۔بھارت نے جب اپنی فضائیہ کو جنگ میں جھونکا تو اْسے پاک شاہینوں نے مفلوج کرکے رکھ دیا۔بری اور فضائی افواج کی طرح پاک بحریہ نے بھی قوم کو سربلند رکھنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔انہوں نے بھارتی بحریہ کو سر اٹھاتے ہی کچل کر رکھ دیا۔ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں دنیا نے دیکھ لیا کہ ملک و ملت کی بقاء اور حفاظت پر قربان ہونے کے جذبہء شوق شہادت سے سرشار اور موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے والی قوم ہی سازوسامان اور افرادی قوت کی کمی کے باوجود تاایزدی پر ایمان رکھ کر اپنے بڑے سے بڑے دشمنوں پر بھی غالب رہتی ہے۔جب بھارت کو ہر محاذ پر منہ کی کھانا پڑی تو آخر کار سلامتی کونسل کا دروازہ کھٹکھٹایا۔59برس گزرنے کے باوجود 6ستمبر1965ئکی یادیں تازہ پھولوں کی طرح مہکتی ہیں۔یہ یادیں اسلئے شاداب ہیں کہ اس میں شہیدوں کے لہو کی مہکاریں شامل ہیںکیونکہ شہید تو مرتے نہیں۔انہیں مردہ نہیں کہنا چاہئے وہ تو زندہ اور خوش و خرم ہیں!!