فوجی عدالتوں میں  سویلینز کا ٹرائل جائز قرار

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق انٹرا کورٹ اپیلوں پر محفوظ فیصلہ سنا دیا۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں قائم 7 رکنی بینچ نے یہ فیصلہ سات، دو کی اکثریت سے صادر کیا۔ جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نعیم افغان نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔سپریم کورٹ نے سویلینز کے ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے آرمی ایکٹ کی شق 2(1)(d)(i) اور (ii) کو بحال کر دیا۔ عدالت عظمیٰ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق دینے کے لیے معاملہ حکومت کو بھیج دیا اور کہا کہ اس حوالے سے قانون سازی کی جائے اور اپیل کا حق ہائی کورٹ میں دینے کے لیے آرمی ایکٹ میں ترامیم کی جائیں۔
آئینی بینچ نے 56 سماعتوں کے بعد یہ فیصلہ سنایا۔ 9 مئی 2023ء کے فوجی تنصیبات، دفتر، مجسموں اور لاہور کے کور کمانڈر ہاؤس پر حملے کے سانحہ کو آج دو سال مکمل ہو چکے ہیں۔ بعض ملزمان کے مقدمات فوجی عدالتوں میں منتقل کیے گئے، جن کے فیصلے دو سے تین ہفتوں میں کر دیے گئے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر فوجی عدالتوں کو فیصلے سنانے روک دیا گیا تھا، تاہم بعد ازاں فوجی عدالتوں کو فیصلے جاری کرنے کی اجازت دے دی گئی، جن کے تحت ملزمان کو مختلف نوعیت کی سزائیں دی گئیں، جن میں چند ماہ سے لے کر دس سال تک قید با مشقت شامل ہے۔دوسری طرف نو مئی کے واقعات سے متعلق مقدمات سول عدالتوں میں بھی زیر سماعت ہیں، مگر ان میں تاحال فیصلوں کی نوبت ہی نہیں آئی۔ فوجی عدالتوں میں 100 سے زائد کیسز کے فیصلے چند ہفتوں میں سنا دیے گئے، جب کہ سول عدالتوں میں مقدمات بدستور زیر التوا ہیں۔ یہی تاخیر فوجی عدالتوں میں کیسز منتقل کرنے کا ایک بڑا جواز بنتی ہے۔ انصاف میں تاخیر کو انصاف سے انکار کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔
سانحہ اے پی ایس کے بعد بھی فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھیں، جس پر پوری پارلیمنٹ متفق تھی۔ اب کے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیلئے قانون سازی بھی پارلیمنٹ نے کی ، جسے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے کالعدم قرار دے دیا، جس سے ادارہ جاتی بالادستی کی بحث شروع ہوئی۔ اب آئینی بینچ نے اس قانون کو جائز قرار دیا ہے جو پہلے کالعدم قرار پایا تھا۔بینچ نے یہ بھی قرار دیا ہے کہ فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے ملزمان کے لیے اپیل کا حق ہونا چاہیے۔ اس ضمن میں معاملہ پارلیمنٹ کو بھجوا دیا گیا ہے۔ جن افراد کو فوجی عدالتوں کے فیصلوں پر تحفظات ہیں ، ان کے خدشات اس صورت میں دور ہو سکتے ہیں اگر پارلیمنٹ ہائی کورٹ میں فوجی عدالتوں سے سزاؤں کے خلاف  اپیل کے حق سے متعلق قانون سازی کر دے۔اگر نظام عدل میں موجود خامیوں کو دور کر لیا جائے اور عدل گستری میں فوری انصاف کے تقاضے پورے ہونے لگیں تو فوجی عدالتوں کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہو گی۔

ای پیپر دی نیشن