تیرے بیٹے تیرے جانباز!

عالمی برادری کا دباو¿ بڑھتا چلا جا رہا تھا اور بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری اس دباو¿ کے سامنے خود کو بہت کمزور محسوس کرنے لگا تھا۔ آخر 22 ستمبر 1965ءکی صبح بھارتی وزیراعظم نے انڈین آرمی چیف جویانتو ناتھ چوہدری کو اپنے پاس بلالیا اور پوچھا ” چوہدری !مجھے صاف صاف بتاو¿، اگر میںاس جنگ کو لمباکرادوں اور عالمی دباو¿ کچھ روز مزید روکے رکھوں تو کیا تم مجھے فتح کی نوید سنا سکتے ہو؟“ بھارتی آرمی چیف جنرل چوہدری نے گھگیا کر کہا”سر ! محاذ جنگ پر بھارت کا زیادہ تر اسلحہ استعمال اور بڑی تعداد میں ٹینک تباہ ہو چکے، مزید کمک محاذ پر پہنچانے میں بہت وقت لگے گا، سر لڑائی بند کئے بغیر کوئی چارہ نہیں، شاستری نے فوراً ہاٹ لائن پر رابطہ کرکے اقوام متحدہ میں اپنے مندوب سے بات کی اوراسے جنگ بندی کیلئے پیشرفت کا حکم دیدیا۔ جنگ ختم ہوئی تو بھارتی وزارت دفاع نے ”1965 کی جنگ کی سرکاری تاریخ“ کے نام سے ایک دستاویزی رپورٹ مرتب کی، لیکن دو دہائی تک کسی کو اس رپورٹ کی ہوا نہ لگنے دی گئی۔ 1992ءمیںیہ رپورٹ منظر عام پر آئی تو اِس رپورٹ نے بھارت کے عسکری اور اقتدار کے ایوانوں میں کھلبلی مچا دی۔ تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا کہ جنرل چوہدری نے وزیراعظم شاستری کے سامنے جھوٹ بولا تھا، 22 ستمبر 1965ءکی صبح تک محاذ جنگ پر صرف چودہ فیصد بھارتی اسلحہ استعمال ہوا تھا اور اس وقت تک بھارت کے پاس ٹینکوں کا بھی اچھا بھلا ذخیرہ موجود تھا، لیکن بزدل بھارتی آرمی چیف پہلے ہی یہ جنگ دل سے ہار چکا تھا، اِس لیے اُس نے فوری طور پر اِس جنگ سے جان چھڑانے میں ہی عافیت جانی۔ پاکستان پر حملے سے پہلے بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیاں پاکستانی فوج کی بہادری اور شجاعت کا صحیح ادراک نہ کر سکیں اور بھارت اپنے اسلحہ کی قوت اور طاقت کے خمار میں پاکستان پر چڑھ دوڑا تھا۔ دوسری جانب اسلحہ اور تعداد میں کم ہونے کے باوجود پاکستانی فوج نے بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا اور بھارتی فوج کے دانت کھٹے کر دیے تھے۔ بھارتی وزارت دفاع کی رپورٹ سے ہی ثابت ہو گیا تھا کہ جنگیں اسلحہ اور تعداد کی برتری پر نہیں جیتی جاتیں، بلکہ یہ کسی ملک کے جوانوں کا جذبہ حب الوطنی، شجاعت، دلیری اور بہادری ہوتی ہے جو انہیں محاذ جنگ پر سرخرو کرتی ہے۔ 6 ستمبر کی صبح جب بھارتی کمان دار کا لاہور جم خانہ میں ناشتہ کرنے کا خوب پورا نہ ہوا تو بھارتی جوانوں کا سارا نشہ ہرن ہو چکا تھا، اس کے بعد بھارتی جوان بے دلی سے لڑتے اور مرتے رہے۔
جنگ عظیم دوم کے بعد چھمب اور چونڈہ میں ٹینکوں کی سب سے بڑی لڑائی لڑی گئی۔ اس لڑائی میں پاکستانی فوج کے شیر دل جوانوں نے سینکڑوں بھارتی ٹینک تباہ کر کے اپنی پیشہ ورانہ برتری کی دھاک بٹھا دی تھی۔ بھارتی فضائیہ کے سربراہ ایئر مارشل ریٹائرڈ پی سی لال نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ ”1965ءکی جنگ میں بھارتی بری فوج اور بھارتی فضائیہ کے درمیان کوارڈینیشن کی کمی واضح طور پر محسوس کی گئی۔ ایک جانب بھارتی بری فوج نے بھارتی فضائیہ کو اپنے وار پلان سے آگاہ ہی نہیں کیا، تو دوسری جانب بھارتی وزارت دفاع اور بھارتی بری فوج نے جو ”وار پلان“ تیار کیا تھا، اس میں بھارتی فضائیہ کا کوئی کردار سرے سے رکھا ہی نہیں گیا تھا۔ دوسری جانب پاکستانی بری فوج اور پاک فضائیہ کے مثالی کوارڈینیشن اور جوابی جنگی حکمت عملی نے بھارت کو ناکوں چنے چبوا دئیے تھے۔ پاک فضائیہ کے ہونہار سپوت ایم ایم عالم نے سیسنا جیسے فرسودہ جنگی طیارے میں بیٹھ کر بھی شجاعت اور جوانمردی کی ایسی داستانیں رقم کیں جو رہتی دنیا تک یاد رکھی جائیں گی۔ یوں پاکستانی جوانوں نے انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں بھی جرات و بہادری کی وہ درخشاں مثالیں قائم کیں جو تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ دراصل بھارتی فوج کا خیال تھا کہ وہ راتوں رات پاکستان کے اہم علاقوں پر قبضہ کر لے گی، لیکن یہ شاید اُس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ شیر سویا ہوا ہو تو پھر بھی شیر ہی ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جونہی اس شیر کو پتہ چلا کہ اس کی کچھار پر حملہ کر دیا گیا ہے تو فوج تو فوج، عام شہری بھی سروں پر کفن باندھ کر دشمن سے بھڑ گئے۔ جسموں سے بم باندھ کر ٹینک اڑانے کے ایسے ناقابل فراموش واقعات نے جنم لیا جو حربی تاریخ نے اس سے پہلے کبھی نہ دیکھے تھے۔ ہندو بنیے نے مذموم عزائم کے ساتھ پاک دھرتی کا رُخ کیا تو اسے اندازہ نہ تھا کہ پاکستانی سپوت اپنے وطن کی طرف اٹھنے والی ہر میلی آنکھ کو پھوڑنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ بھارت کو معلوم نہ تھا کہ پاکستانی اپنی جان وار دیتے ہیں لیکن وطن پر آنچ نہیں آنے دیتے۔ طاقت کے نشے میں چور بھارت جو پاکستان کو دنیا کے نقشے سے مٹانے کے لئے آیا تھا، خود ناکامی اور خجالت کا بدنما داغ اپنے سینے پر سجا کر واپس لوٹ گیا۔
قارئین محترم! بھارت یہ بھی بھول گیا تھا کہ قوموں اورملکوں کی زندگی میں ایک وقت ایسا آتا ہے جب وطن اپنے بیٹوں سے تن من دھن کی قربانی مانگتا ہے۔ اگر ایسے موقع کوئی پیٹھ دکھا جائے تو پھر ساری عمر کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا۔ جو قومیں اس وقت کو پہچان لیتی ہیں، وہ ہمیشہ زندہ رہتی ہیں اور جن قوموں سے یہ وقت پہچاننے میں ذرا سی بھول چوک ہو جائے، وہ اپنا راستہ کھوٹا کرکے تاریخ کے گم شدہ اوراق کا حصہ بن جاتی ہیں۔ 1965ءمیں پاکستانی قوم نے اِس وقت کو پہچان کر ڈٹ جانے کا فیصلہ کیا اور قوم کا ہر فرد دشمن کے ناپاک ارادوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گیا۔ ملکی حالات کا جائزہ لیں تو وقت ایک بار ہم سے 65ءکے جذبے کا مطالبہ کرتا دکھائی دیتا ہے۔ کراچی سے خیبر تک وطن کا ذرہ ذرہ ایک بار پھر مہنگائی سے لے کر دہشت گردی تک ہر عفریت کے خلاف سینہ سپر ہونے کیلئے اپنے بیٹوں کو پکار رہا ہے۔ مملکت خداد اد اپنے بیٹوں سے یہ سننے کیلئے ہمہ تن گوش ہے۔
اے وطن تونے پکارا تو لہو کھول اٹھا
تیرے بیٹے تیرے جانباز چلے آتے ہیں

ای پیپر دی نیشن