مہر عبدالخالق لک جدہ سعودی عرب
ہر ملک کے کاروبار کرنے کے اپنے اصول و ضوابط ہوتے ہیں اور وہ ان پر سختی سے عمل کرتے اور کرواتے ہیں چاہیے وہ ان کے اپنے مقامی انوسٹر ہوں یا غیر ملکی ، وہ اپنے اصولوں کے معاملے میں کسی قسم کے لچک کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ جس کی سب سے بڑی مثال سعودی عرب ہے۔سعودیہ کی اپنی پالیسیاں ہیں جن پر وہ خود بھی سختی سے عمل کرتے ہیں اور اپنے ہاں آنے والوں سے کرواتے ہیں۔
اب دیکھیں ناں کہ وہ اپنے ہاں نئی نئی چیزیں لا رہے ہیں ، اپنی سر زمین پر بیرون ممالک سے کاروباری طبقے کو دعوت دے رہے ہیں ، ہر اہم ایشو اور پروڈکشن پہ ایکسپو کر رہا ہے ،جس سے فایدہ اٹھاتے ہوئے انڈیا نے بھی یہاں ائی پی ایل کی بولی لگوائی۔ خیر ہمارے پاس تو جو چیز بچتی ہے وہ رئیل اسٹیٹ ہے یا بلڈنگ سسٹم ہے یا ہمارے فوجی قطر کے فٹبال مقابلوں کی حفاظت کی جاتے ہیں۔ یعنی پاکستان کسی اہم ایکسپو کا حصہ نہیں بنتا کیونکہ اسے یہاں کے نظام کاروبار کے حوالے سے " رشوتی۔ شارٹ کٹ اور فرینڈلی" نہیں لگتا۔
جس کی ایک ترین وجہ یہاں کا بینکنگ نظام ہے ، جہاں بینک ویزا کارڈ ،ماسٹر کارڈ کی سہولتیں نہیں دیتے جو دبءاور یورپ ۔پاکستان ریئل اسٹیٹ انڈسٹری میں یہاں سے اچھا انوسیٹر لے سکتا ہے لیکن مسئلہ پاکستانیوں کا کاروبار کا طریقہ ہے جو سعودیوں کو نہیں پسند۔جی ہاں۔۔ دیکھیں پاکستان میں ایک لینڈ انویسٹر پہلے زمین خریدتا ہے اور پھر اس پر پروجیکٹ کو ڈویلپئر سے شئیر کرتا ہے ، جی یہ آپ کی فائل ہے اور یہ اس کا پلان ہے۔پانچ اور تین سال کا ادائیگی پلان دیتا ہے اور پھر حوالے کرنے کے بھی چارجرز وصول کرتا ہے اور اسے نئے نئے نام دیتا ہے جیسے لینڈ ڈویلپمنٹ چارجز ، کارنر پر چاہیے تو اس کے الگ سے چارجز وغیرہ وغیرہ جبکہ سعودی یہ نہیں کرتے ، یہاں پہلے بلڈنگ بنے گی مکمل ضابطوں کے مطابق۔پھر فلیٹس کی رجسٹریشن ہوتی ہے یعنی یہ فلیٹ رہائش کے لیے منظور شدہ ہیں۔پھر اس کے بعد لوگوں کو وہ قسطوں پہ دیتے ہیں جسے مقامی زبان میں تملیک کہتے ہیں وہ چار پانچ سال کی کے لیے دیتے ہیں۔
یعنی سعودی انویسٹرز کے ساتھ کام کرنے کے لیے پاکستانیوں کو بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
اب دیکھیں کہ آجکل یہاں جدہ میں دوسری
2nd Investment Opportunities Summit &Smart EXPO
کا سیزن چل رہا ہے جس کے معاونین میں پاکستان سے پی آئی اے سمیت اور کئی دوسرے ادارے شامل ہیں۔ یہ ایک بہترین موقع ہے لیکن میری ذاتی رائے میں سعودی شھری انویسٹر کو پاکستان لیکر جایا جائے اور جو بلڈنگ ہو وہ پوری بلڈنگ اس کی ہو اور اس میں صرف سعودی کے ساتھ جو پاکستانی یہاں پہ رہتے ہیں ان کے ساتھ پارٹنر شپ ہو تاکہ ان کو یہاں پہ ڈیل کرنا آسان ہو۔ یعنی معاملات ڈالر یا پاکستانی کرنسی کی بجائے اس کے ساتھ معاملات سعودی ریال میں کیے جائیں۔ یعنی کہ ان کے ساتھ کفیل اور مکفل کی طرح کے معاملات رکھے جائیں۔
یہ سعودیوں کے ساتھ بزنس کرنے کا آسان اور محفوظ راستہ ہے۔ جس میں پاکستان ریئل اسٹیٹ کی جانب سے متوقع فراڈ کے مواقع کم رہ جائیں گے۔
بات ختم کرتے کرتے خیال آیاہم اپنے ہا تھوں سے اپنے جوان پتر اور زمین کتنے شوق سے بیچ رہے ہیں۔ چلو اس نسل کی اچھی گزر جائیگی۔۔