پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف سید جنرل عاصم منیر کی زیر صدارت کور کمانڈرز کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ فورم کے شرکاء نے شہداء کے ایصال ثواب کے لئے فاتحہ خوانی کی اور مادر وطن کے امن و استحکام کے لئے جانیں قربان کرنے والے شہدائے افواج پاکستان، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور شہریوں کی لازوال قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔ فورم کو خطے کی موجودہ صورتحال، قومی سلامتی کو درپیش چیلنجز اور بڑھتے ہوئے خطرات کے جواب میں پاکستان کی حکمت عملی کے بارے میں جامع بریفنگ دی گئی۔
فورم نے اس عزم کا اعادہ بھی کیا کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرنے والے ملک دشمن عناصر، سہولت کاروں اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے والوں کے ساتھ ریاست پوری طاقت سے نمٹے گی۔ کسی کو بھی بلوچستان میں امن میں خلل ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔شرکائے کانفرنس کے مطابق بلوچستان میں تمام ملکی اور غیر ملکی عناصر کا اصل چہرہ، گٹھ جوڑ اور انتشار پھیلانے اور پروان چڑھانے کی کوششیں پوری طرح سے بے نقاب ہو چکی ہیں، ایسے عناصر اور ایسی کوششیں کرنے والوں کو کسی بھی قسم کی معافی نہیں دی جائے گی۔ فورم نے نیشنل ایکشن پلان کے دائرہ کار کے تحت ’’عزمِ استحکام‘‘ کی حکمت عملی کے تیز اور موثر نفاذ کی ضرورت پر زور دیا۔
پاکستان اس وقت ایک بار پھر دہشتگردی کی زد میں ہے۔ کے پی کے سے لے کر بلوچستان تک دہشتگرد عناصر ریاستی اداروں، قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں اور معصوم شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔یہ ایک غیر معمولی صورت حال ہے جس سے نمٹنے کے لیے غیر معمولی اقدامات درکار ہیں۔
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی زیر صدارت ہونے والی 268ویں کور کمانڈرز کانفرنس میں نہ صرف ملکی و علاقائی سلامتی کا جائزہ لیا گیا بلکہ دہشتگردی کے خلاف بلاتفریق کارروائیوں کے عزم کا اعادہ بھی کیا گیا۔ کانفرنس میں واضح پیغام دیا گیا کہ ملک دشمن عناصر، ان کے سہولت کاروں اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں کے خلاف ریاست اپنی پوری طاقت سے کارروائی کرے گی۔ خاص طور پر بلوچستان میں امن کو سبوتاڑ کرنے کی سازشوں کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کی یقین دہانی کروائی گئی۔ اسی طرح نیشنل ایکشن پلان کے تحت ‘‘عزمِ استحکام’’ کی مؤثر اور تیز تر حکمت عملی پر زور بھی واضح کرتا ہے کہ عسکری قیادت دہشتگردی کے خاتمے میں پر عزم ہے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا ذوالفقار علی بھٹو کی۔برسی پر خطاب بھی بروقت اور حقیقت پسندانہ تھا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں اس امر کو اجاگر کیا کہ دہشتگردوں کا کوئی مذہب یا قوم نہیں ہوتی، وہ محض پیشہ ور قاتل ہیں جن کا مقصد پاکستان میں خون کی ہولی کھیلنا اور عدم استحکام پیدا کرنا ہے۔ بلاول بھٹو نے یہ حقیقت بھی بیان کی کہ دہشتگرد عناصر کبھی مذہب، کبھی علیحدگی پسندی کو جواز بنا کر ملک توڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی اس بات میں وزن ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے اختلافات کو پس پشت ڈال کر متحد ہو جائیں، کیونکہ کوئی ایک صوبہ یا ادارہ دہشتگردی جیسے عالمی چیلنج کا تنہا مقابلہ نہیں کر سکتا۔
دہشتگردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان پر بلا تاخیر، بلا تفریق، اور بھرپور عملدرآمد کی ضرورت تو ہے ہی۔ نیشنل ایکشن پلان کا ازسرنو جائزہ لینا اور اسے موجودہ حالات سے ہم آہنگ کرنا بھی ناگزیر ہو چکا ہے۔ خاص طور پر دہشتگردوں کی مالی معاونت، سہولت کاری، اور بیرونی روابط کا قلع قمع کرنے کے لیے واضح پالیسی اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
دہشت گردی واقعتاً ناسور کی شکل اختیار کر چکی ہے۔11 مارچ 2025ء کو جعفر ایکسپریس کے اغواء کے بعد اگر مگر اور لیکن کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔تمام پارٹیوں کو دہشت گردی کے خلاف اسی طرح سے متحد ہونا ہوگا جس طرح 2014ء میں سانحہ اے پی ایس پشاور کے بعد اتحاد اور اتفاق نظر آیا تھا۔افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ تحریک انصاف کی طرف سے سانحہ جعفر ایکسپریس کے بعد قومی سلامتی کمیٹی کے پارلیمانی اجلاس میں شرکت نہیں کی گئی۔اس کا بائیکاٹ کر دیا گیا۔تحریک انصاف کے تحفظات ہو سکتے ہیں مگر یہ اجلاس ایسے تحفظات کے اظہار کا کوئی موقع نہیں تھا۔بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے کہا گیا کہ ایک مرتبہ پھر کمیٹی کا اجلاس بلا لیا جائے۔جس میں اپوزیشن یعنی تحریک انصاف بھی شامل ہو۔وہ اجلاس ہو چکا،تحریک انصاف نے اس میں شرکت نہ کر کے بڑی نادانی کی ہے۔ایسے ہی ایک اور اجلاس کی ضرورت نہیں ہے۔اجلاس میں بریفنگ دی جا چکی، تقاریر ہو چکیں، لائحہ عمل بھی طے کیا گیا۔تحریک انصاف اس کی حمایت کر دے تو بس وہ کافی ہوگا۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ سول، عسکری، سیاسی، اور عدالتی ادارے ایک صفحے پر آئیں۔ دہشتگردی کی اس نئی لہر کو شکست دینے کے لیے سیاسی اتفاقِ رائے، مربوط حکمت عملی، اور عوامی حمایت نہایت اہم ہیں۔ میڈیا کو بھی چاہیے کہ وہ قومی مفاد میں عوام میں آگاہی پیدا کرے اور فرقہ واریت، نسلی یا علاقائی تعصبات کو فروغ دینے والے بیانیے کو رد کرے۔
تحریک انصاف سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں کو بھی اب حقیقت کا ادراک کرنا ہو گا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ محض حکومت یا کسی ایک ادارے کی نہیں، بلکہ پوری قوم کی جنگ ہے۔ اس جنگ میں کامیابی صرف اس صورت ممکن ہے جب ہم سب سیاسی اختلافات سے بالا تر ہو کر پاکستان کی سالمیت، امن اور ترقی کے لیے متحد ہوں۔
یہی وقت ہے قومی مفادات کو ترجیح دینے کا، دہشتگردوں کو شکست دینے کا، اور پاکستان کو امن و استحکام کی راہ پر گامزن کرنے کا۔ کیونکہ پاکستان کا مقدر پرامن، مستحکم اور خوشحال ریاست ہے جو صرف اور صرف ہمارے اجتماعی عزم اور عملی اقدامات سے ہی ممکن ہے۔