طارق محمود مرزا، آسٹریلیا
tariqmmirza@hotmail.com
چند روز قبل ایک عزیز کی بیرون ملک سے آمد متوقع تھی تو انھیں سڈنی ائرپورٹ سے لینے کے لیے میں علی الصبح پانچ بجے گھر سے روانہ ہوا۔ ابھی سپیدہ سحر نمودار نہیں ہوا تھا لیکن سڈنی کی سڑکیں ایسے مصروف تھیں جیسے دوپہر کے بارہ بجے ہوں۔ یہ میرے لیے اچنبھے کی بات نہیں تھی کیونکہ یہاں لوگ رات جلد سونے اور صبح جلد ا?ٹھنے کے عادی ہیں۔ خیر سڈنی میں تو پھر بھی رات دیر تک قدر یرونق رہتی ہے لیکن آسٹریلیا کے چھوٹے شہروں، قصبوں اور گاؤں کا یہ خاصا ہے کہ ان کے باسی تڑکیاٹھ کر کام کاج پر نکل جاتے ہیں۔ جو کام نہیں کرتے وہ بھی ان کے ساتھ علی لصبح اٹھ جاتے ہیں۔ بازار ،دفاتر اور دیگر کاروبار حیات طلوع آفتاب سے قبل شروع ہو کر سہ پہر تک جاری رہتے ہیں۔ جونہی سہ پہر ہوتی ہے کاروبار سمٹنے شروع ہو جاتے ہیں۔ پانچ بجے بازار سنسان ہو جاتا ہے۔صرف پٹرول پمپ یا اکا دکا بیکری کھلی مل جائے تو غنیمت ہے ورنہ لوگ گھروں میں یا کلب میں بیٹھے دن بھر کی تھکاوٹ دور کر رہے ہوتے ہیں، گاؤں کی محدود دنیا کی اور باہمی دکھ سکھ کی باتیں کرتے ہیں، ہنستے بولتے، کھاتے پیتے اور ٹی وی سے جی بہلاتے ہیں اور پھر رات گہری ہونے سے قبل نیند کی آغوش میں پناہ لے لیتے ہیں۔ ایسے قصبات میں رات نو بجے کے بعد مکمل سناٹے کا راج ہوتا ہے۔ ان لوگوں کا انداز زندگی تقاضائے فطرت کے عین مطابق ہے۔ قدرت نے دن کام اور رات آرام کے لیے بنائی ہے۔ اس لیے دن کو ضیائے شمس اور حرارت سے مزین کیا ہے جو کاروبار حیات کے لیے ضروری ہے۔ جبکہ ظلمت شب اور خنکی شب خوابی کے لیے موزوں ہے۔ یہی منشائے فطرت ہے۔ اسی لیے رات کی پانچ گھنٹے کی نیند دن کے دس گھنٹے کی نیند سے بدرجہا بہتر ہے۔علاوہ ازیں ہر مرد و زن اور کم سن بچوں کو روزانہ کم از کم آدھا گھنٹہ دھوپ میں گزارنا ضروری ہے جو جسم کی ضرورت کے مطابق وٹامن مہیا کرتا ہے۔ لیکن اگر پاکستان کی بات کی جائے تو ہم فطرت کے بالکل برعکس زندگی بسر کر رہے ہیں۔ پاکستان میں شہروں بلکہ قصبوں اور گاؤں میں بھی لوگ رات تا دیر جاگتے ہیں۔ پوری پوری رات گھومتے پھرتے ، کھاتے پیتے اور خریداری کرتے ہیں۔ صبح گھر آ کر سو جاتے ہیں اور اگلے روز سہ پہر کے بعد اٹھتے ہیں۔ اگلے ڈیڑھ دو گھنٹے انگڑائیاں لینے، کسل مندی دور کرنے، فون پر طویل گفتگو کرنے میں صرف ہوتے ہیں۔ جب وہ دکان کھولنے یا کاروبار کا رخ کرتے ہیں تو آفتاب دن بھر کی ضیاپاشی کے بعد غروب ہونے کے قریب ہوتا ہے۔ ایسے میں جملہ دکانداری اور خریداری برقی قمقموں کی روشنی میں کی جاتی ہے۔ شادی بیاہ ہو یا دیگر تقریبات سب رات کے وقت اور مصنوعی روشنی میں انجام پاتی ہیں۔ رات بھر جاگنے والوں اور تقریبات منعقد کرنے والوں کے گھریلو بل بھی بہت زیادہ آتے ہیں۔ اس سے نہ صرف بجلی کے استعمال میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے جو پہلے سے انرجی کی کمی کے شکار ملک کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔اس طرز زندگی سے ہمارا خاندانی نظام بھی متاثر ہوتا ہے شام کے اوقات میں جب تمام اہل خانہ کے اکٹھے ہونے اور مل بیٹھنے کا وقت ہوتا ہے اس وقت سب اپنے اپنے شغل پر نکلے ہوتے ہیں اور پھر نصف شب کے بعد باری باری آکر اپنے اپنے بستروں میں پناہ لیتے ہیں۔ ایسے میں باہمی میل جول کا موقع نہیں ملتا اور دوریاں جنم لیتی ہیں۔ دنیا بھر میں جو وقت گھروں میں لوٹنے کا ہوتا ہے ہمارے ہاں اس وقت لوگ گھروں سے نکلتے ہیں گویا ہم نے دن کو رات اور رات کو دن بنا رکھا ہے۔ دن کے وقت جب سورج روشنی اور حرارت بخش رہا ہوتا ہے ہم پردے گرا کر اور ایئر کنڈیشنر آن کر کے سو رہے ہوتے ہیں اور جب آرام کے لیے رات پر کھولتی ہے تو ہم فطرت کے تقاضوں کے برعکس کام کاج اور سماجی میل جول کے لیے نکل پڑتے ہیں۔ ہم ان معصوم بچوں کا بھی خیال نہیں کرتے جنہیں صبح سکول جانا ہوتا ہے۔ سورج کی روشنی اور تمازت سے صحت پر مرتب ہونے والے مفید اثرات سے بھی اکثر محروم رہتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر ہم قوانین فطرت سے بغاوت کرتے ہیں اس کی وجہ سے قدرت کے عطا کردہ فوائد و ثمرات سے محروم رہ جاتے ہیں۔ فطرت سے ہم آہنگی عین فطرت ہے اور فطرت سے دوری خلائق فطرت سے دوری ہے۔ قدرت بھی ان کی مدد کرتی ہے جو قدرت کے اصولوں پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ سورج کی روشنی، حرارت اور وقت اللہ کی نعمت ہے ان نعمتوں سے منہ موڑنا کفران نعمت ہے جس کے نتائج لازمی سامنے آتے ہیں۔ مغلیہ دور حکومت کے زوال اور انگریزوں کی کامیابی کے اسباب کا جائزہ لیا جائے تو ایک ہی مثال کافی ہے کہ مغلیہ بادشاہ دوپہر کے وقت جب سو کر اٹھتے تھے اور ناشتے کی تیاری کی جاتی تھی اس وقت انگریز حکمران آدھا دن کام کرنے کے بعد دوپہر کا کھانا کھا رہے ہوتے تھے۔ اس کے نتائج عیاں ہیں۔صبح کی ٹھنڈی اور تازہ ہوا، پھولوں کی خوشبو، پرندوں کی چہچہاہٹ اور سورج کی پہلی کرنیں ہر چیز کو خوبصورت بنا دیتی ہیں۔ ان قدرتی مناظر کو دیکھ کر ایک طرح کی خوشی اور سکون ملتا ہے۔ فطرت صبح میں اپنی خالص ترین شکل میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ صبح سویرے آسمان کی طرف دیکھنا کتنا اطمینان بخش ہوتا ہے، آنکھوں کو راحت ملتی ہے اور دل امیدوں سے بھر جاتا ہے۔ اگر آپ صبح سویرے اٹھتے ہیں تو آپ صبح کے تمام کام ٹھنڈے دماغ اور جوش و جذبے کے ساتھ کر سکتے ہیں۔ علامہ اقبال نے اپنی ایک نظم "روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے" میں اسی قدرتی مناظر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے:
کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ
مشرق سے ا?بھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
انگریزی میں ایک بہت مشہور کہاوت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جلدی اٹھنا آپ کے دن کو نتیجہ خیز اور کامیاب بنا دیتا ہے۔ بلاشبہ، جب آپ جلدی اٹھتے ہیں تو روز مرہ کے کاموں کو نپٹانے کے لیے آپ کے پاس کافی وقت ہوتا ہے۔ بہت سارے عالمی شہرت یافتہ دانش وروں نے صبح جگنے کو صحت اور دماغ کے لیے اچھا بتایا ہے۔ یونانی فلسفی ارسطو نے لکھا ہے:
"It is well to be up before daybreak, for such habits contribute to health, wealth and wisdom""صبح سویرے جاگنا اچھی عادت ہے، کیونکہ ایسی عادتیں صحت، دولت اور ذہانت و ذکاوت میں اضافہ کرتی ہیں۔"
اس موضوع پر جوش ملیح آبادی کا ایمان افروز شعر ہے۔
ہم ایسے اہل نظر کو ثبوت حق کے لیے
اگر رسول نہ ہوتے تو صبح کافی تھی
حکیم الامت حضرت علامہ اقبال جو تاحیات سحر خیزی کے عادی رہے حتیٰ کہ یورپ کے یخ بستہ موسم اور ناسازگار ماحول میں بھی یہ ذوق برقرار رہا، فرماتے ہیں۔
زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی
نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آداب سحر خیزی
علامہ مرحوم کے اسلوب زندگی، ان کی افتاد طبع اور نظم و نثر کو نگاہ میں رکھیں تو ان کے مطابق سحر گاہی سے ہی حریم ِ کبریا تک رسائی ممکن ہے اس کے بغیر کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
عطار ہو، رومی ہو، رازی ہو، غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی