از حکیم راحت نسیم سوھدروی
مسئلہ کشمیر 75 سال سے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان وجہ تنازعہ بنا ہوا ہے دونوں ممالک کے درمیان تین جنگیں ہو چکی ہیں کءبار مذاکرات ہوے مگر مسئلہ جوں کا توں ہے بلکہ اس کی سنگینی میں اے روز اضافہ ہوریا ہے اور ہندوستان کے ظلم اور زیادتیوں میں اضافہ ہوگیا ہے اور کشمیر کا ہر گھر ہندوستان حکومت کے قہر کا نشانہ بن چکا ہے خطہ کشمیر خون سے لالہ زار ہے اور امن خواب بن چکا ہے
1947 میں جب تقسیم ھند کے نتجے میں دو ازاد ریاستیں ھندوستان اور پاکستان کے قیام کا فیصلہ ھوا تو قرار پایا کہ مسلم اکثریتی علاقے پاکستان کا حصہ ھوں گے جب کہ پانچ سو کے لگ بھگ ازاد اور نیم ریاستوں کے بارے طے پایا کہ مسلم اکثریتی آبادی والی ریاستیں پاکستان سے ملحق ھونے میں ازاد ھوں گی البتہ اگر کسی ریاست میں مسلمانوں کی اکثریت ھو اور حکمران غیر مسلم ہو تو ایسی صورت میں فیصلہ جغرافیائی حالات اور عوام کی مرضی سے ھوگا مگر ایک سازش کے تحت ریڈ کلف ایوارڈ کے جانبدارانہ فیصلہ سے ہندوستان کو گرداسپور ضلع کی بعض تحصیلوں دے کر ھندوستان کی کشمیر تک غیر قدرتی راہ پیدا کر دی گءاس سلسلے میں اس وقت کے وائسرے ھند لارڈ ماو¿نٹ بیٹن کا کردار اور ریڈ کلف کی سازش اب تاریخ کے صفحات پر پوری طرح عیاں ھو چکی ھے اور ریڈ کلف کے سیکرٹری کرسٹن فر جو اس کا عینی شاہد تھا نے بھی اپنے بی بی سی کو ایک انٹرویو میں اس کی تصدیق کردی تھی
وادی کشمیر جسے جنت ارضی کہا جاتا ھے اور جس کے متعلق بادشاہ جھانگیر نے تزک جہانگیری میں لکھا ھے کہ اگر روح زمین پر جنت نظیر خطہ ھے تو وہ وادی کشمیر ھے یہ وادی ہمیشہ سے اسلام کا گہوارہ رھی ھے مغلوں کے دور میں اسے صوبے کا درجہ حاصل رھا پھر جب انگریز حکمران بنے تو بھی اس کی الگ حثیت قائم رھی ایک سو سال کے اقتدار کے بعد 1846 میں معائدہ امرتسر کے تحت مھا راجہ گلاب سنگھ ڈوگر کو 75 لاکھ نانک شاھی ( روپے) اور سالانہ چند بکریوں اور شالوں کے عوض فروخت کردیا- گلاب سنگھ نے کشمیریوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے پھر اس کے پوتے ھری سنگھ نے بھی یہی سلوک روا رکھا یھاں تک کہ کشمیری خود کو اس خاندان کا غلام سمجھنے لگے اس ڈوگرہ خاندان کا دور حکومت مسلمانوں کے لئے سیاہ دور ثابت ھوا مسلمانوں کو سیاسی معاشی تعلیمی اور سماجی طور پر ختم کرنے کی سعی ھوءجبکہ برھمنوں کو جو کشمیری پنڈت کھلاتے تھے ھر طرح سے مضبوط بنایا گیا جس سےمسلمانوں کے صبر کاپیمانہ لبریز ھوگیا اور 1924 میں وائسرے ھند لارڈ ریڈنگ کو یاداشت پیش کی کہ ان کے مسائل کا مدوا کیا جاے لارڈ ریڈنگ نے اس پر کمیٹی بناءمگر اس کے جانے کے بعد مہاراجہ ہری سنگھ نے یہ کمیٹی ھی ختم کردی جس پر مسلمانوں نے بھرپور احتجاج کیا مسلمان راہنما عبدالقدیر نے قیادت کی اور ریلی سے خطاب کیا جس پر اسے گرفتار کرلیا گیا 13 جولاء1931 کو اس کے خلاف سری نگر جیل میں مقدمہ کی سماعت ھوءتو مسلمانوں نے جیل کے باھر دھرنا دے دیا مگر ڈوگرہ حکمرانوں نے تشدد کی انتھا کردی اور گولیاں چلا دئیں 13 افراد شھید ھوے اور بے شمار نذرزندان ھوے جس پر پورے ھندوستان کے مسلمان اظہار یک جہتی کے لئے نکل اے اور ایک کمیٹی بنائی اور آزادی کشمیر کےلئے جدوجہد کا آغاز کردیا 1943 میں قائد اعظم نے بھی کشمیر کا دورہ کیا 1947 میں جب تقسیم ھند کا فیصلہ ھوا تو کشمیر جو ھر اصولی قانونی اخلاقی اور جغرافیائی لحاظ سے اور تقسیم ھند کے فارمولے کے مطابق پاکستان کا حصہ بنتا تھا کو متنازعہ بنا دیاگیا جس پر طے یہ پایا کہ صورت حال کو اسی طرح رکھا جاےمگر ریڈ کلف کے غلط اور جانبدارانہ فیصلہ کی وجہ سے ھندوستان نے گرداسپور کے راستے سے رساءحاصل کرلی اور مہاراجہ ھر ی سنگھ کو معزول کرکے اپنی افواج کشمیر میں داخل کرکے قبضہ کر لیا اور جواز یہ دیا کہ ہری سنگھ نے دوماہ قبل تحریری طور پر ہندوستان سے الحاق کی درخواست کی تھی جو قبول کر لی گی ھے جب کہ ہری سنگھ دوماہ گیارہ روز قبل حالات کو فی الحال جوں کا توں رکھنے کا معائدہ کرچکا تھا ویسے بھی ہری سنگھ عوام کا نمائندہ نہیں تھا اور اسے اقتدار اپنے دادا سے وراثت میں ملا تھا جس نے اقتدار انگریز سے معائدہ امرتسر کے تحت خریدا تھا ہندوستان اس نام نہاد دستاویز کی اڑ میں اپنی افواج کشمیر میں لے آیا اور قبضہ کرلیا حکومت پاکستان نءنءبنی تھی اور انتظامی مسائل میں الجھی ہوءتھی کسی طرح مستحکم نہ تھی بے شمار مالی سیاسی انتظامی
ی فوجی اور اقتصادی مسائل تھے جب کہ کشمیری عوام آٹھ کھڑے ھوے اور کچھ حصہ ازاد کراکے ازاد کشمیر حکومت قائم کردی تو ھندوستان خود ھی اقوام متحدہ میں چلا گیا جہاں تسلیم کیا کہ یہ متنازعہ علاقہ ھے جس کا تصفیہ ھونا ھے اس کی افواج عارضی طور گی ھے اور کشمیریوں کو اپنے مستقبل کے فیصلہ کا اختیار ھوگا کہ وہ ھندوستان یا پاکستان جس کے ساتھ مناسب سمجھیں الحاق کریں اس سلسلے میں باقاعدہ راے شماری ھوگی جس پر اقوام متحدہ نے راے شماری کی قرارداد منظور کرلی مگر ھندوستان چانکیہ کے اصول سیاست کے تحت کہ مفاد کے لئے دھوکا اور جھوٹ جائز ھے اس طرح اپنے ھی اعلان سے منکر ھوگیا اور اب تک مسلسل ٹال رھا ھے اھل کشمیر دیکھتے اور سوچتے رھے مگر جب کوءداد رسی نہ ھوءتو اٹھ کھڑے ھوے کشمیری مسلمانوں کی سعی ناکام بنانے کے لئے ان کی تنظیم ال جموں و کشمیری کانفرنس کے چوھدری غلام عباس کے سامنے نیشنل جموں کشمیر کانفرنس کے شیخ عبداللہ کو وزیراعظم نامزد کردیا اس طرح شیخ عبداللہ پنڈت نہرو کے ہم رنگ دام میں آگئے اور ہندوستان کی سازش کامیاب ھوگءاگر شیخ عبداللہ غداری کا مرتکب نہ ہوتا تو اج کشمیر ازاد ھوتا مگر شیخ عبداللہ کا انجام وھی ھوا جو غداروں کا ھوتا ھے کہ وہ استعمال ھونے کے بعد جیل بھیج دئیے گئے اب تو ہری سنگھ کے بیٹے بھی تاریخ کی سچائیاں ھندوستان کی پارلیمنٹ میں بیان کرچکے ھیں
مسئلہ کشمیر پر ھندوستان اور پاکستان میں 1948 ، 1965 ، اور1971 میں تین جنگیں ھو چکی ھیں مگر بھارت ٹس سے مس نھیں ھوا اور اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ھے یوں یہ مسئلہ اج بھی معلق اور اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر ھے بلکہ اسے تقسیم ھند کا نامکمل ایجنڈا کھا جاتا ھے ان حالات میں اھل کشمیر کے لئے کوءراہ باقی نہ رھی اور وہ اٹھ کھڑے ھوے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خطہ جنت نظیر میں خون کی ندیاں بھہ رھی ھیں 1990 کے بعد یہ تحریک زور پکڑ گءتو ھندوستان نے 5 اگست 2019 کو ائین کی شق 35 اے اور 370 کے تحت کشمیر کی خصوصی حثیت ختم کرکے نہ صرف بھارتی ائین کی خلاف ورزی کی بلکہ اس تحریک کر مزید گرما دیا اور جہاد کے نئے دور کا آغاز ھوا-کشمیری حریت پسند اپنے خون سے نءتاریخ رقم کرتے لگے ھیں جس کی ایک ایک سطر قیامت تک مسلمانوں اور مظلوں کے خون کو گرماتیی رھے گی اگر چہ یہ تحریک تو گذشتہ 75 سال سے جاری ھے مگر جو شدت اب اءھے ا س نے ساری دنیا کو متوجہ کرلیا ھے اور ساری دنیا کے ذرائع ابلاغ پر تذکرہ ھے اور دنیا کے ھر فورم پر موضوع بحث ھے آخر کیوں نہ اس کے اثرات محسوس کئے جائیں کہ ھزاروں افراد اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ھیں اور روز ان میں اضافہ ہورھا ھے کشمیری حریت پسند ٹارچر سیلوں میں انسانیت سوز مظالم برداشت کررھے ھیں ان کے گھر جلاے جارھے ھیں روزمرہ کی ضروریات زندگی مفقود ھو کر رہ گءھیں آخر ان کا قصور یہ ھے کہ اپنا حق مانگتے ھیں کشمیری جو بزدلی کے طعنے سن سن کر عاجز آچکے تھے اب آگ اور خون میں نھا کر اس کا جواب دے رھے ھیں اور آزادی کے حسین خواب کے لئے نکل چکے ھیں ھندوستان ا ن کو ختم کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رھا ھے اور آخری داو پیچ لڑا رھا ھے مگر کشمیری عوام بھارتی ریاستی مشینری کو مفلوج کر چکے بیں بندوق سے دبانے کی سعی نے بندوق ان کے ہاتھ میں دے دی ھے وہ موت و حیات کی کشمکش میں اس راہ کے مسافر بن چکے ھیں جو سوے مقتل کو جاتا ھے وہ اپنےاذیت ناک صبر کا دامن تار تار کرکے عزم وحوصلہ سے بے مثال قربانیوں سے تحریک حریت کو فیصلہ کن موڑ پر لے اے ھیں -ہندو مہا سبھا کا یہ خیال غلط ثابت کردیا ھے کہ وقت گزرنے کے ساتھ کشمیری قوم کا جذبہ حریت سرد پڑجاے گا اور کشمیری غلامی کو مقدر جان کر حالات سے سمجھوتہ کرلیں گے اہل کشمیر کی جدوجہد نے یہ تو بتا دیا ھے کہ ھندوستان سے الحاق کا معاملہ تو ختم باب ھے اب یہ تحریک صرف الحاق پاکستان کی ھے اور کسی راے شماری کی ضرورت نہیں رھی شھادت یا ازادی ھی ہر کشمیری کی منزل بے جبروتشدد کا ڈرامہ اور دبانے کی سعی اب آخری موڑ پر ھے کشمیر خون خون ھے ہندوستان کا ظلم و تشدد ہندو کی ناکامی کی صدا ھے جس سے کشمیریوں کا جذبہ ایمانی مزید پختہ ھورھا ھے سید علی گیلانی کی نماز جنازہ اس کا واضح اظھار ھے
کشمیر کے فلک بوس پہاڑ وں اور چناروں کی قطاروں سے اس وقت امید صبح آزادی کے امید افزا نغموں سے وادی کشمیر گونج رھی ھے اور صاف نظر ارھا ھے کہ بھارت سینا کی شکست یقینی اور قریب تر ھے -اہل کشمیر مسلمانوں کی جدوجھد نے سب کو لاجواب کردیا ھے کہ اگر کشمیری ازادی چاھتے ھیں تو خود کیوں نھیں نکلتے وہ جس طرح خوابیدگی کا لبادہ تار تار کرکے مجاہدانہ سرگرمیوں میں مصروف ھیں اب تو ساری دنیا ور طہ حیرت میں ھے اگر چہ ان کی یہ سعی گزشتہ 75 سالہ جدوجہد کا تسلسل ھیں مگر اب اس میں شدت بتاتی ھے کہ سحر ھونے کو ھے بعض عناصر خود مختار کشمیر کی بات کرکے اس تحریک کو کمزور کرنا چاھتے ھیں ان مشکل حالات میں کشمیر کی درودیواروں پر پاکستان کے نعرے لکھنا اس بات کا اظھار ھے کہ وہ الحاق پاکستان کی جنگ لڑرہے ھیں یوں یہ تحریک تکمیل پاکستان کی ھے مگر ھماری بے حسی ملاحظہ ھو کہ ھم اس مسئلہ پر اتفاق رائے سے اعلان کرنے کی بجاے سیاست چمکا رھے ھیں کشمیر کا بھارت کے ساتھ رہنا تقسیم کے اساسی فارمولہ کے منافی ھے قائد اعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا اس طرح یہ ھماری اپنی جنگ ھےتاریخ کا نازک موڑ ھمیں پکار رھا ھے کہ ھم فروعی مسائل سے بالا تر ھوکر ازادی کشمیر کے لئے کوءٹھوس کام کریں کشمیری جو امت رسول ھیں ان کا خون پکار رھا ھے کہ انہیں اسلام سے محبت اور ملت واحدہ سے تعلق کی سزا دی جارھی ھے اگر دنیا میں کہیں بھی ایسی صورت حال ھوتی تو امریکی اور حقوق انسانی کے نام نھاد علمبردار اگے بڑھتے اقوام متحدہ کی قراردادوں کا سہارا لیتے مگر جہاں خون مسلم ھو وھاں ان کے معیارات بدل جاتے ھیں اور ان ممالک کا آپسی مسئلہ قرار دے کر الگ ھو جاتے ھیں فلسطین اور کشمیر اس کی واضح مثالیں ھیں ان حالات میں ھم کو مضبوط حکمت عملی سے اس جنگ میں بھرپور کردار ادا کرنا چاھئیے