حافظ حسین احمد بھی ھم کو چھوڑ گے

 احسان ناز

پاکستان کے مایا ناز زیرک سیاستدان سابق ایم این اے سینیٹر صوبائی اور وفاقی وزیر اور پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے شہر کویثہ کی تصویر حافظ حسین احمد   دنیا سے انتقال کر گئے پاکستان کی کروڑوں انکھیں ان کے لیے نم ہیں اور ان کے لیے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی حافظ حسین احمد کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے سالہا سال تک مولانا فضل الرحمن اور حافظ حسین احمد کے درمیان سیاسی طور پر اختلافات رہے لیکن میں سلام پیش کرتا ہوں حافظ حسین احمد  کو کہ انہوں نے جمعیت علماء￿  اسلام نہیں چھوڑی جبکہ وہ جمعیت علماء  اسلام کی قیادت مولانا فضل الرحمان پر کھل کر تنقید کرتے رہے اور بارہا ان کی رکنیت کو معطل کیا گیا لیکن انہوں نے کسی اور سیاسی پارٹی میں شمولیت اختیار نہیں کی جب کہ پاکستان میں میں ایسے سینکڑوں سیاستدانوں کو جانتا ہوں جو پارٹی میں ذرا سی ان بن ہو جائے تو فرد طور پر سیاسی دھڑا اور سیاسی پارٹی تبدیل کر لیتے ہیں حافظ حسین احمد کو میرے علم کے مطابق جب وہ مولانا فضل الرحمن سے ان کی سیاسی چالوں پر نالہ تھے تو پاکستان پیپلز پارٹی مسلم لیگ نون پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے انہیں کئی بار اپنی اپنی پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی لیکن انہوں نے عزم بالجزم کر رکھا تھا کہ وہ اخر دم تک جمیعت علماء￿  اسلام میں رہیں گے اور پارٹی کے لیے کام کریں گے اب جب وہ اس دنیا سے چلے گئے تو مولانا فضل الرحمان نے ان کے وصال کے ایک دن بعد اسلام اباد سے کوئٹہ سپیشل طیارہ لے جا کر سیدھے حافظ حسین صاحب کے مدرسے پہنچے یہاں وہ رہتے تھے پورے کوئٹہ کو خبر نہ ہوئی کہ مولانا فضل الرحمان حافظ حسین احمد کی رہائش گاہ پر تعزیت کے لیے تشریف لا رہے ہیں وہ انن فانن اسلام اباد سے کوئٹہ اہے اورحافظ حسین احمد کے گھر امد کر ان کے  بچوں حافظ منیراحمد اور ظفر سے ملاقات کی اور حافظ صاحب کے بڑے بیٹے حافظ منیر احمدکو  حافظ حسین احمد کی دستار پہنائی اور کہا حافظ حسین احمد میرے بھائی تھے یہ مدرسہ اور ان کی رہائش کاہ میرا دوسرا گھر ہے تو میں یہاں ا کر یہ اعلان کرتا ہوں کہ میں انشاء￿ اللہ حافظ حسین احمد کے مشن کو پورا کروں گا اس موقع پر مجھے یاد ائا کہ  جب مولانا شیرانی اور دیگر جمعیت علماء   اسلام کے رہنما جو کہ جمیعت علماء￿  اسلام میں رہتے ہوئے اپنا الگ دھڑا بنا بیٹھے تھے ان میں سے الگ دھڑا بنانے والے تمام رہنماجمعت علماء   اسلام سے الگ ہو گئے لیکن حافظ حسین احمد مرتے دم تک جمہوری طور پر جمعت علماء￿  اسلام کے پرچم تلے اور اسی پرچم میں دفن ہوئے حافظ حسین احمد کی جو سب سے اہم بات ہے کہ انہوں نے پاکستان کے مختلف سرکاری عہدوں پرکام کرنے   کے باوجود مولانا فضل الرحمن کی طرح جائیدادیں نہیں بنائی عربوں کھربوں کے محل نہیں بنائے وہ جس مدرسے میں رہائش پذیر تھے اخری دم تو اسی میں رہے اور ان کے بیٹے حافظ منیر امد کی مولانا فضل الرحمان نے ان کے چھوٹے بھائی حافظ ظفر احمد کی موجودگی میں د ستار بندی کی اور پھر واپس اسی خصوصی تیارے میں جس میں وہ اسلام اباد سے تعزیت کے لیے تشریف لائے تھے واپس چلے گئے حافظ حسین احمد کی میرے ساتھ تعلق داری 50 سال پر محیط ہے اور جب بھی لاہور تشریف لاتے تو خصوصی طور پر چند لمحوں کے لیے میرے غریب خانے پر ڈیفنس میں تشریف لاتے اور وہاں پریس کانفرنس بھی ضرور کرتے تھے میری اخری ملاقات حافظ حسین احمد کی ایک ماہ قبل لاہور میں میری رہائش کا اور میرے ٹی وی چینل کے پروگرام سیاست بخیر میں ہوئی جب اپ حافظ حسین احمد صاحب سپیشل ٹی وی کے پروگرام سیاست بخیر میں تشریف لائے ٹی وی چینل کے مالک  جماعت اسلامی کے جنرل سیکرٹری امیر العظیم اور میری بیگم جو کہ پاکستان تحریک انصاف کی میڈیا کوارڈینیٹر لاہور ہیں زیبا ناز  نے استقبال کیا انہوں نے علیل ہونے کے باوجود بھرپور عزم بالجزم سے اسپیشل ٹی وی کے پروگرام  سیاست بخیر میں انٹرویو دیا اور ملکی حالات پر گفتگو کی حافظ حسین احمد پاکستان کے سیاست دانوں میں علم و فضل کے ساتھ ساتھ مرنجان شخصیت تھے ان کا ہر لفظ ہر بول بامعنی ہوتا تھا اور انٹرویو لینے والے کو سرخیاں نکالنے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی تھی ان کا نام اقوام عالم میں اور پاکستان کے ہر بڑے شہر میں پہنچانا جاتا تھا  پاکستان کے سیاسی اور مذہبی گھرانوں میں ان کی تکریم تھی وہ ایک ہی وقت میں محترمہ بے نظیر بھٹو میاں محمد نواز شریف عمران خان مولانا فضل الرحمن جماعت اسلامی کے رہنماؤں اور دیگر بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین سے بلا تفریق گفتگو کرنے میں مضائقہ نہیں سمجھتے تھے اور انہوں نے ملک میں امن قانون کی بالا دستی شانتی کے لییکام کیا انہوں نے پوری زندگی اپنا کردار ادا کیا اور کوئٹہ کے قومی اسمبلی کے الیکشن میں جو کہ پاکستان کا سب سے بڑا حلقہ کوئٹہ کے ساتھ ساتھ چاغی اور ایرانی بارڈر تک تھا اس حلقہ سے پیپلز پارٹی کے فتح محمد حسینی جو کہ پاکستان کے بہت بڑے سرمایہ دار ہیں ان کو اپنی شہرت عزت اور نیک نامی کے ذریعے شکست دے دوچار کیا اس طرح متعدد مرتبہ میں نے دیکھا کہ ان کو سفر میں مشکلات صرف اس لیے اتی تھی کہ وہ سرمایہ کے لحاظ سے ممبر قومی اسمبلی اور سینیٹر کوئٹہ کوئٹہ اسلام اباد کراچی لاہور انے جانے میں اس لیے  دقت پرشانی محسوس کرتے تھے  ان  کو سفر میں سفری سہولیات کے ساتھ ساتھ اخراجات کے بھی مسائل اتے تھے حافظ حسین احمد ملکت مملکت پاکستان میں ایسے نامور سیاست دان تھے کہ ان کو صدیوں یاد رکھا جائے  جائے گا کیونکہ انہوں نے فقیری میں بادشاہی کی اور دولت اور دھن کے پیچھے وہ نہیں دوڑے انہوں نے دین کے ساتھ ساتھ عزت کروائی اور اج بھی وہ میری دانست میں پاکستان میں جتنے بھی سیاست دان چلے گئے ان سب میں روشن ستارے کی طرح وہ چمکنے والے ستارے ہیں جن  کی بھرپور زندگی گزارنے میں کسی قسم کا کوئی ایسا داغ نہیں ہے جو ان کو اور ان کی اولاد حافظ منیر احمد اور حافظ ظفر احمد کو پریشان کرے میں حافظ  حسین احمد کی وفات پر ان کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے زندگی بھر قانون کی بالادستی پر کسی قسم کی کوئی لغزش نہیں کی کہ جس کی بنیاد پر ان کے جانے کے بعد بھی کوئی ان کی طرف انگلی اٹھائے یا بات کرے

ای پیپر دی نیشن