امید کا چراغ: نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی

عباس ملک

ہوا میں ایک عجیب سی بوجھل پن تھی، جیسے زمین کسی ان کہی کہانی کا بوجھ اپنے سینے میں دبائے بیٹھی ہو۔ درختوں کی شاخیں ساکت تھیں، پرندے چپ تھے، اور فضا میں وہ خاموشی تیر رہی تھی جو کسی بڑے طوفان سے پہلے جنم لیتی ہے۔ اچانک کہیں دور سے چیخوں کی مدھم گونج ابھری، جیسے کسی بے رحم ہاتھ نے زندگی کے ساز پر خوف کی ایک لرزتی ہوئی تان چھیڑ دی ہو۔ زمین نے انگڑائی لی، لہریں بے قابو ہو کر کناروں کو توڑنے لگیں، آسمان کی آنکھیں برسنے لگیں، اور انسان اپنے ہی بنائے ہوئے مضبوط قلعوں میں قیدی بن کر رہ گئے۔ کچھ لمحوں میں سب کچھ بدل چکا تھا— بستیاں ملبے میں دفن، کھیت پانی میں ڈوبے، اور خواب گرد کے طوفان میں بکھرتے جا رہے تھے۔ مگر انہی بکھرتی امیدوں میں ایک روشنی تھی، ایک سایہ جو مصیبت زدگان کی طرف بڑھ رہا تھا، جو تھمتے ہاتھوں کو سہارا دے رہا تھا، جو زندگی کی راکھ میں سے امید کے چراغ روشن کر رہا تھا۔ یہی وہ روشنی تھی جو ہر آفت میں سب سے پہلے نمودار ہوتی، جو ہر زخم پر سب سے پہلے مرہم رکھتی، جسے دنیا NDMA کے نام سے جانتی ہے۔جب فطرت اپنے خالق کی جانب سے بھیجی گئی آزمائشوں کا دامن کھولتی ہے، جب زمین کی کروٹوں سے شہر ملبے کا ڈھیر بن جاتے ہیں، جب سیلابی موجیں بستیاں بہا لے جاتی ہیں، جب آسمان سے برستے غضب کے قطرے انسانوں کے خوابوں کو تہہ و بالا کر دیتے ہیں، جب ہوا کی بپھری آندھیاں درختوں کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکتی ہیں، جب آگ کی لپٹیں جلتی زندگیوں کے نوحے رقم کرتی ہیں— تب ایک ادارہ، ایک امید، ایک دیوارِ استقامت صفِ اول میں کھڑی دکھائی دیتی ہے، جسے دنیا نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) کے نام سے جانتی ہے۔ یہ ادارہ محض ایک تنظیم نہیں، بلکہ قومی غیرت، انسانی خدمت اور عزمِ مصمم کی وہ عملی تفسیر ہے، جو ہر مصیبت کے لمحے میں ایک سپاہی کی طرح سینہ سپر ہو جاتی ہے۔ NDMA کی رگوں میں وہ جذبہ موجزن ہے، جسے نہ تھکن ماند کر سکتی ہے، نہ مایوسی کی گرد آلود ہوائیں اس کے ارادوں کی چمک کو ماند کر سکتی ہیں۔ جب لوگ آہوں اور سسکیوں کے بوجھ تلے دب رہے ہوتے ہیں، جب امیدیں دم توڑنے لگتی ہیں، تب یہی ادارہ اپنی چمکتی آنکھوں، بے خوف قدموں اور بے مثال تدبیر کے ساتھ میدانِ عمل میں اترتا ہے اور اپنے دستِ شفقت سے ہر زخم پر مرہم رکھتا ہے۔ کیا وہ منظر یاد نہیں جب 8 اکتوبر 2005 کی صبح، پاکستان کی زمین نے ایک ایسا زلزلہ محسوس کیا جس نے ہزاروں بستیاں کھنڈر بنا دیں، لاکھوں زندگیاں مٹی میں دفن ہو گئیں، اور بے شمار لوگ بے گھر ہو کر کھلے آسمان تلے بے یار و مددگار ہو گئے؟ ہر جانب نوحے تھے، آہیں تھیں، بکھرتی امیدیں تھیں۔ مگر انہی ملبوں میں سے NDMA کے جاں باز نمودار ہوئے، جن کے ہاتھوں میں امدادی ساز و سامان تھا، آنکھوں میں انسانیت کا درد تھا، اور دل میں مظلوموں کا سہارا بننے کا عزم۔ زلزلے کے بعد جب زمین تھم گئی تھی، مگر چیخ و پکار ختم نہیں ہوئی تھی، تب NDMA نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر ریسکیو آپریشن شروع کیا۔ پہاڑوں کی بلندیوں میں، ملبے کے نیچے دبی زندگیوں کو نکالنے کے لیے یہ لوگ آہنی حوصلے کے ساتھ جا پہنچے۔ سامانِ خوراک ہو یا خیمہ بستیاں، طبی امداد ہو یا بحالی کے اقدامات— NDMA کا ہر سپاہی ان تمام محاذوں پر برسرِ پیکار رہا۔ پاکستان کی سرزمین، جہاں حسنِ فطرت کے انمول خزانے بکھرے ہیں، وہیں یہاں کے دریاؤں کی طغیانی، موسمی بے اعتدالی اور غیر متوقع بارشیں اکثر بستیوں کو پانی کی لہروں کی نذر کر دیتی ہیں۔ 2010 کا تباہ کن سیلاب ہو یا 2022 کی المناک بارشیں، NDMA کا کردار ہر آفت میں اولین صف میں رہا ہے۔ جب پانی کا شور حیات کی چیخوں کو دبا دیتا ہے، جب لہریں سب کچھ بہا لے جاتی ہیں، جب ہر طرف بے بسی کا عالم طاری ہوتا ہے، تب NDMA کے فدائی، اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر سیلاب زدگان کے پاس پہنچتے ہیں، انہیں محفوظ مقامات پر منتقل کرتے ہیں، خوراک و ادویات فراہم کرتے ہیں اور یوں اس قوم کی ڈوبتی امید کو کنارے لگاتے ہیں۔ یہ ادارہ وہ آخری دیوار ہے جو قوم کو فطری آفات کے ہاتھوں بے بس ہونے سے بچاتی ہے۔ NDMA کی حکمتِ عملی محض آفات کے بعد امداد فراہم کرنے تک محدود نہیں، بلکہ قبل از وقت انتباہی نظام، الرٹ جاری کرنے، عوامی آگاہی مہمات، اور ریسکیو ٹیموں کی پیشگی تعیناتی جیسے اقدامات بھی اس کے فرائض میں شامل ہیں۔ این ڈی ایم اے نہ صرف زلزلوں اور سیلابوں میں جانیں بچانے کے مشن پر گامزن ہے، بلکہ ہر قسم کی ہنگامی صورتحال میں اس کا متحرک کردار قابلِ ستائش ہے۔ کورونا وبا کے دنوں میں جب دنیا بے یقینی کے اندھیروں میں گم تھی، جب ہسپتالوں میں آکسیجن کی کمی ہو رہی تھی، جب لوگ اپنے پیاروں کی سانسیں بحال رکھنے کے لیے دوڑ دھوپ کر رہے تھے— اس وقت بھی NDMA نے اپنی ذمہ داری کا حق ادا کیا۔ بیرونِ ملک سے ہنگامی بنیادوں پر وینٹی لیٹرز اور حفاظتی سامان منگوانا ہو یا اسپتالوں میں رسد پہنچانا، NDMA نے اس بحران میں اپنا کردار انتہائی مؤثر انداز میں نبھایا۔بے رحم طوفانوں، بے قابو آگ، اور غیر متوقع حادثات میں بھی NDMA ہمیشہ ہر اول دستے کی طرح آگے بڑھتا ہے۔ چاہے کسی صنعتی علاقے میں کیمیکل کا حادثہ ہو، جنگلات میں لگنے والی آگ ہو، یا کسی عمارت کا انہدام— NDMA کی ٹیمیں فوراً متحرک ہوتی ہیں، اپنی مہارت، جذبے اور جانفشانی سے مصیبت زدہ افراد کی مدد کرتی ہیں اور بحرانوں کو قابو میں لانے کی سعی کرتی ہیں۔این ڈی ایم اے محض ایک ادارہ نہیں بلکہ ایک ہمہ جہت نظام ہے جو بحرانوں کے امکانات کو کم کرنے کے لیے قبل از وقت حکمتِ عملی پر یقین رکھتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نبردآزما ہونے کے لیے ڈیزاسٹر مینجمنٹ پالیسی کی تشکیل، تربیتی ورکشاپس، بین الاقوامی تعاون اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے NDMA ہر لمحہ متحرک ہے۔یہ ادارہ ملک کے تمام اداروں کے ساتھ مل کر مربوط حکمتِ عملی تشکیل دیتا ہے، جن میں فوج، سول انتظامیہ، محکمہ موسمیات اور دیگر ادارے شامل ہیں۔ ہر ہنگامی صورتحال میں بروقت ردعمل دینا، ہنگامی امداد کی ترسیل، بحالی کے اقدامات اور مستقبل کے خطرات کا سدِ باب کرنا NDMA کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے۔ اس ادارے کی اصل طاقت وہ گمنام ہیرو ہیں جو رات کی تاریکی میں بے سہاروں کی روشنی بن کر پہنچتے ہیں، جو زندگی اور موت کے درمیان ایک دیوار کی مانند کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی نیند، اپنی راحت، اپنی زندگی کو داؤ پر لگا کر دوسروں کے گھروں کو محفوظ بنانے میں مصروف رہتے ہیں۔ NDMA کے یہ کارکنان، یہ ریسکیو ورکرز، یہ آفیسرز— سبھی انسانیت کے اصل محافظ ہیں، جن کے عزم، حوصلے اور انتھک محنت کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ این ڈی ایم اے محض ایک سرکاری ادارہ نہیں، بلکہ یہ قوم کی وہ محافظ قوت ہے، جو ہر آفت کے لمحے میں ایک نجات دہندہ کے طور پر سامنے آتی ہے۔ اگر زلزلے کی گرج ہو، سیلاب کی تباہی ہو، وبا کا خوف ہو، یا حادثے کی ہولناکی، NDMA اپنی ذمہ داری سے کبھی غافل نہیں ہوتا۔ یہی وہ ادارہ ہے جس نے لاکھوں تباہ حال گھروں میں روشنی کے دیے جلائے، جو ہر مصیبت زدہ کی امید بنا، جو ہر آفت میں سینہ تان کر کھڑا رہا۔ NDMA نہ صرف آج بلکہ آنے والے ہر دور میں پاکستان کے دفاعی و فلاحی محاذ پر سب سے نمایاں رہے گا، کیونکہ یہی وہ ہاتھ ہے جو گرنے والوں کو تھام لیتا ہے، یہی وہ کندھا ہے جس پر بے سہارا اپنا سر رکھ سکتا ہے، اور یہی وہ ادارہ ہے جو آفات کی تاریکی میں امید کی شمع روشن کرتا ہے۔پاکستان زندہ اباد

ای پیپر دی نیشن