ان کالموں میں بارہا سیاسی جدوجہد کی تاریخ بیان کرتے ہوئے ایک کردار لیاقت وڑائچ ایڈووکیٹ کاذکرہوتا رہا ہے۔ (MRD) ”تحریک بحالی جمہوریت“ جس کا آغاز ضیاءالحق کی آمریت کے خلاف 80ء کی دہائی کے شروع میں ہوا، بے شمار سیاسی راہنماو¿ں اور MRD کی جماعتوں کے کارکنان کو قید وبند میں رکھا گیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے کئی کارکنوں کو لاہور کے بدنام زمانہ شاہی قلعہ کی دیواروں کے پیچھے بیٹریاں ڈال کر تفتیش کے نام پر ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ سیاسی کارکنوں کے علاوہ وکلاءاور صحافیوں کو ٹکٹیوں پر چڑھا کر کوڑے مارے جاتے اوران کے گوشت اور خون کا تماشا دیکھا جاتا۔ کوڑے کھانے والے وکلاءمیں مرحوم جہانگیر بدر کانام سب سے بلند رہا۔ صحافیوں میں ہمارے انتہائی محترم قیوم نظامی اور خاور نعیم ہاشمی شامل تھے۔ کئی بانکے اور سجیلے کارکنوں کو تختہ دارپر کھینچ دیا گیا۔ جوروستم کی ایک طویل تاریخ ہے، جس میں ہماری جدوجہد آسمان پر چمکنے والے ستاروں سے بھی زیادہ روشن ہے۔ مجھ سمیت حبیب جالب، چوہدری اعتراز احسن، خورشید قصوری، چوہدری انور عزیز مرحوم، ملک قاسم اور سابق صدر پاکستان فاروق لغاری ان کٹھن راہوں کے راہی رہے۔ ایک جیل سے دوسری جیل ایک شہر سے دوسرے شہر اور جیلوں میں بھی ایک بیرک سے دوسری بیرک کایہ اعصاب شکن سفر کم وپیش 5سال تک جاری رہا۔ 1983ءمیں ہم سب کوٹ لکھپت جیل لاہورکے قصائی خانے میں تھے تو دوسری جانب کیمپ جیل لاہور میں بھی لیاقت وڑائچ، چوہدری نواز گوندل اور دیگر بہت سے سیاسی کامریڈ بند تھے۔ جب رہائی ہوئی تو لیاقت وڑائچ کے زرخیز ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ سیاسی قیدیوں کی رہائی اور ان کے گھر وں کے کچھ نہ کچھ اخراجات پورے کرنے کیلئے ایک کمیٹی کاقیام عمل میں لایا جائے جو مستقل بنیادوں پر کام کرے۔ یہاں بتاتا چلوں کہ عاصمہ جہانگیر کے ”ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان“ HRCP کاقیام اس کے بعد عمل میں آیا۔ فرق صرف یہ تھا کہ وہ پیسے والے لوگ تھے اور ہم ٹھہرے فاقہ مست۔ لاہور ہائی کورٹ کے موجودہ ملک سعید حسن لاو¿نج سے میں اور لیاقت وڑائچ جی پی او بس سٹاپ سے ایک ایک روپیہ کا ٹکٹ لے کر بس میں بیٹھے اور پرل کانٹی نینٹل ہوٹل جس کا نام اس وقت انٹرکانینٹل تھا، وہاں HRCP کے بنیادی اجلاس میں پہنچے۔ ذکر ہورہا تھا سیاسی قیدیوں کی رہائی اوران کی بہبودکا، سو ایک روز ملک سعید حسن لاو¿نج میں ہی لیاقت وڑائچ ایڈووکیٹ نے ایک اجلاس بلایا۔ سہہ پہر 3بجے شروع ہوئے اس اجلاس میں MRD کی مختلف سیاسی جماعتوں کے لوگوں نے شرکت کی اور ”سیاسی اسیران رہائی وبہبود کمیٹی“ کا قیام عمل میں آگیا۔ مرحوم ملک قاسم بڑے فعال اورجگردارآدمی تھے، انہیں اس کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا اور لیاقت وڑائچ کو جنرل سیکرٹری۔ راجہ ذوالقرنین ایڈووکیٹ کو کمیٹی کے سیکرٹری اطلاعات کی ذمہ داریاں دی گئیں جبکہ ایگز یکٹو کمیٹی میں میرے علاوہ سلمان تاثیر، منظورگیلانی، نواز گوندل اور کچھ دیگر سیاسی کارکنان بھی شامل تھے۔ جب ہم نے اپنے سفر کا آغاز کیا تو معلوم ہواکہ جب تک ملک کی تمام جیلوں میں قید سیاسی کارکنوں کے کوائف جمع نہ کرلئے جائیں ان کی قانونی مدد نہیں کی جاسکتی۔ ہاں البتہ ان کی بہبود کے لئے کچھ کام کیا جا سکتا ہے۔ بہبود کے سلسلے میں سب سے اہم یہ تھا کہ ان کے گھروں میں چولہا جلتا رہے۔ مگر افسوس کہ اس معاملے میں ہمارے ساتھ بہت کم لوگوں نے تعاون کیا۔ جوکرنا بھی چاہتے تھے وہ مارشل لاءکے خوف سے دور سے ہی ہاتھ ہل اکر چلے جاتے۔ اس کے باوجود ہم ایک طرح سے بھیک مانگ کر مستحق سیاسی کارکنوں کی مددکرتے۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے یہ سوچ رہی ہے کہ سیاسی کارکنوں اوران کے بچوں کو بھوک نہیں لگتی، ان کے ساتھ پیٹ نہیں لگے ہوتے۔ ان کے جسم بدلتے موسموں کی گرمی اور سردی سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ اگروہ جیل میں ہیں تو یہ تقدیر کا لکھا ہوا ہے۔ دل کوریزہ ریزہ کردینے والے ان واقعات کے تسلسل کے باوجود کمیٹی عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹا کر کچھ نہ کچھ ضرور حاصل کرتی رہی۔ کسی کی بیٹریاں کھلوائیں، کسی کو قید تنہائی سے نکلوایا، کسی کی بے جا مشقت کو ختم کرایا، کسی کی ان کے گھر والوں سے ملاقات کا منقطع سلسلہ دوبارہ شروع کرایا۔ جیل حکام کومل کر ان سے سیاسی قیدیوں کے ساتھ عزت سے پیش آنے کی درخواست کی۔غرضیکہ آخری سیاسی قیدی کی رہائی تک سیاسی اسیران ”رہائی وبہبود کمیٹی“ یہ سب کام ایک فرض سمجھ کر کرتی رہی۔ یہ ایم آر ڈی کی جدوجہد کا نتیجہ تھاکہ 1983ءمیں تحریک شروع کی تو 1984ءمیں جنرل ضیاءالحق نے ریفرنڈم کرایا۔ اس ریفرنڈم سے اعتماد پاکر 1985ء میں قومی انتخابات بھی کرانا پڑے۔ گرچہ یہ انتخابات غیرجماعتی بنیادوں پر تھے مگر یہ انتخابات اوراس کے نتیجے میں بننے والے وزیراعظم محمد خاں جونیجو جنرل ضیاء الحق کے لئے موت کا پر وانہ لے کر آئے۔ محمد خاں جونیجونے وزیر اعظم بنتے ہی ملک سے مارشل لاءختم کرنے کاعزم ظاہرکردیا۔ جس میں وہ کامیاب بھی ہوئے پھر بات الجھتی چلی گئی جو جنرل ضیاءالحق کی جان لے کرہی سلجھی۔ ہم بھی 1985ءکے بعد جیلوں، کوڑوں، شاہی قلعے، بالا حصار،CIA چونا منڈی اور طوق وسلاسل سے آزاد ہوگئے۔ جب آزاد ہوئے تو اسیران رہائی کمیٹی کا کام بھی اب ہم نے ختم سمجھا۔
2005ءمیں ”نوائے وقت“ کے سنڈے میگزین میں میر ایک طویل مضمون ”جیل کے دن جیل کی راتیں“ لگ بھگ ایک سال تک مسلسل شائع ہوتا رہا۔ جنرل پرویز مشرف کے دورمیں میں نے اس مضمون میں پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو مشورہ دیاتھا کہ وہ بھی کسی ایسی کمیٹی کاقیام عمل میں لائیں کیونکہ دونوں کو اس کی ضرورت تھی۔ مگر یہ میگزین کے صفحات پر لکھا ہی رہ گیا۔ اب اس وقت تحریک انصاف کے بیسیوں مرد خواتین جیلوں میں ہیں۔ تحریک انصاف کو چاہیے کہ وہ سیاسی قیدیوں کی رہائی اور بہبود کے لئے ایسی ہی کسی کمیٹی وغیرہ کا قیام عمل میں لائے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے لئے بھی یہی مشورہ ہے کیونکہ میں نے اپنی نصف صدی سے کچھ زائد سیاسی زندگی میں حکمرانوں کو جیلوں میں بے یارومددگار دیکھا ہے۔ سب سے زیادہ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کو ایک عذاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مجھے اندازہ ہے کہ مستقبل میں پیپلز پارٹی اورخاص طور پر ن لیگ کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوگا۔ اس کی پیش بندی ابھی سے ضروری ہے۔