مہنگائی میں کمی کے لیے  ہنگامی اقدامات کی ضرورت 

مہنگائی نے عام آدمی کی قوت خرید پر کاری ضرب لگائی ہے ، اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں روزانہ کی بنیاد پر بڑھتی جا رہی ہیں بلکہ اشیاء خورد و نوش کے نرخوں کے حوالے سے عام تاثر یہ ہے کہ جتنی مہنگائی موجودہ حکومت کے تین سالہ دور میں ہوئی اتنی تو پچھلے 70 سالوں میں بھی نہیں ہوئی تاہم وزیر اعظم عوام کو ریلیف دینے کے لیے اپنے روز اوّل کے مشن پر رواں دواں ہیں ، وہ ہر روز مہنگائی میں کمی کے لیے احکامات جاری کرتے ہیں ، اشیاء ضروریہ کی مصنوعی قلت کا نوٹس بھی لیتے ہیں لیکن شاید مافیا طاقتور ہے یا انتظامی مشینری وزیر اعظم کے احکامات کو کسی خاطر میں نہیں لاتی۔ اس لیے نتیجہ صفر ہی رہتا ہے۔ گزشتہ روز بھی وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت اجلاس ہوا جس میں وزیر خزانہ شوکت ترین ، وزیر صنعت و پیداوار خسرو بختیار ، وزیر منصوبہ بندی اسد عمر، وزیر خوراک سید فخر امام، وزیرمملکت برائے اطلاعات و نشریات فرخ حبیب اور دیگر حکام نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر وزیراعظم عمران خان کو چینی اور گندم کے ذخائر کے بارے میں آگاہ کیا گیا، وزیر اعظم کو یہ بھی بتایا گیا کہ خوردنی تیل کی قیمت میں 10 سے 15 روپے کلو کمی متوقع ہے۔ تاہم وزیراعظم نے کہا کہ ’’انتظامی افسروں کیخلاف کارروائی ناکافی ہے ، مہنگائی کم کرنے کے حوالے سے انتظامی اقدامات کے نتائج سامنے آنے چاہئیں تاکہ عوام کو ریلیف میسر آئے۔ ‘‘
عوام کو ریلیف دینے کے لیے وزیر اعظم کا جذبہ قابلِ ستائش ہے تاہم تین سال میں بیانات زیادہ اور اقدامات کم ہی رہے ہیں۔ اس لیے حکومت کو چاہئے کہ باقی مدت حکومت کے لیے تمام کوششیں اور وسائل مہنگائی میں کمی کے لیے صرف کر دے ۔ جس کی ابتدا پٹرولیم مصنوعات ، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں نمایاں کمی کر کے کی جائے کیونکہ توانائی کی قیمتوں میں کمی ہو گی تو اس کے اثرات اشیاء خورد و نوش کی قیمتوں میں کمی کی صورت میں بھی سامنے آئیں گے ، عوام کو فوری ریلیف دینے کے لیے ایسے ہی ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن