شگاگو کے شہیدوں کو دنیا بھر کے مزدور وں کا سلام

غازی احمد حسن کھوکھر
 (nlamultan@gmail.com)
یکم مئی کا دن ہر سال محنت کشوں کے دن کے نام سے منایا جاتا ہے اور دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ گو کہ مزدور طبقے کا بہت بڑا حصہ یہ دن بھی محنت مشقت اور اپنے لئے روزگار کمانے میںگزار دیتا ہے۔ آج بھی جب دنیا کے مختلف حصوں میں مزدوروں کا  استحصال ہو رہا ہے محنت کش کو محض بے جان و بے زبان مشینری کا ایک پرزہ جان کر استعمال کیا جارہا ہے۔ 
آج سے تقریباً ڈیڑھ صدی قبل جب ا وقات کار کا تعین اور ملازمت کا تحفظ تھا ،نہ ہی واجبات مقرر تھے، سرمایہ دار صنعت کار اپنی مرضی کی  اْجرت پر ملازم رکھتے اور جب چاہتے نکال باہر کرتے تھے۔ آگ کی بھٹیوں کے سامنے کام کرنے والے  علاج معالجہ کے لائق بھی نہ سمجھے جاتے تھے ۔ مزدوروں کو ایک غلام کی طرح رکھا جا رہا تھا تو مزدوروں نے اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کی ٹھان لی۔ مزدوروں کے احتجاج کے بعد سب سے پہلے امریکہ میں مزدور تحریک کو تسلیم کیا گیا جہاں  شکاگو میں دنیا بھر کی طرح بالآخر مزدوروں کی  آواز صنعت کاروں اور حکمرانوں کے ایوانوں تک گونجنے لگی۔ ریاستی اداروں نے حکمرانوں کی خواہشات پر ظلم و تشدد جاری  رکھا ۔ کئی مزدوروں کو قید و بند کی سزائیں دی گئیں مگر روزانہ مزدور جمع ہوکر ڈیوٹی  کے اوقات مقرر کروانے کیلئے مطالبات کرتے اوراحتجاج کرتے رہے۔ احتجاج کا سلسلہ نہ رکنے پریکم مئی1886ء کی صبح صنعت کاروں ، ریاستی اداروں نے نہتے مزدوروں پر بھاری آتشی اسلحہ سے لیس پولیس  کے ذریعے گولیاں برسادیں جس سے مزدوروں کا قتل عام ہوگیا۔ شکاگو کی گلیاں مزدوروں کے خون سے سرخ ہو گئیں، کئی مزدور راہنماؤں اور مزدوروں کو شہید کرنے کے بعد سرکردہ مزدور لیڈروں کو پھانسیاں دیدی گئیں، مزدوروں نے پھانسی کے پھندے خوشی سے پھولوں کے ہار سمجھ کر گلے میں پہنے اور رہتی دنیا تک کے محنت کشوں، غریبوں کیلئے قربانی دے گئے۔
 مزدور لیڈر  پھانسیاں گلے میں ڈالتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ’’تم ہماری جانیں لے سکتے ہو مگر ہماری اس آواز کو نہیں دبا سکو گے، یہ رہتی دنیا تک ہر غاصب اور استحصال کرنے والوں کا تعاقب کرتی رہیں گی‘‘۔ ایک مزدور لیڈر نے کہا ’’موت ایک حقیقت ہے جسے آنا ہے مگر مزدوروں کے حقوق کیلئے دی جانے والی ہماری جانوں کی بھاری قیمتیں تمہیں ادا کرنا پڑے گی‘‘۔  پھر وقت نے ثابت کیا کہ مزدور فتح یاب ہوئے اور جبر، طاقت، ظلم و تشدد شکست کھا گیا۔ بالآخر صنعت کاروں اور حکمرانوں نے مزدوروں کے جذبے کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے اور ان کے مطالبات تسلیم کرنے کی حامی بھر لی گئی۔ اس موقع پر مزدوروں کی اْجرت و مراعات کے اصول طے ہوئے، ہائر اینڈ فائیر کے اصول وضع کئے گئے، ڈیوٹی اوقات 8گھنٹے مقرر ہوئے، علاج معالجہ، رہائشی اور کام کی جگہ پر مناسب ماحول بارے شرائط طے پا گئیں، تنخواہوں میں اضافے کا حق تسلیم کر کے ٹریڈ یونینز ، لیبر ویلفیئر کے اداروں کا نظام دیدیا گیا۔
 امریکہ دنیا میں پہلا ملک تھا جس نے مزدوروں کو یہ حقوق دیئے۔ اس کے بعد آج تک دنیا بھر میں مزدور تحریکیں چلتی رہی ہیں۔ پاکستان میں بھی مزدوروں کا استحصال ہوتا آرہا ہے۔ملتان میں کالونی ٹیکسٹائل ملز،لانڈھی میں مزدوروں پر گولی چلائی گئی۔ ملک بھر کے مختلف شہروں میںآج بھی  مزدوروں پر تشدد قید و بند کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں مگرریاستی اداروں کی ہٹ دھرمی  کی وجہ سے ان کے حقوق تسلیم نہیں کئے جاتے۔ آج بھی انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO) کی قرار دادوں کے تحت دنیا بھر کے بیشتر ممالک کی طرح پاکستان  بھی ، لیبر کورٹس، سوشل سیکیورٹی ادارے و ہسپتال اور اولڈ ایج بینیفٹس (EOBI) سمیت  دیگر اقدامات کرنے کا پابند ہے۔
 عالمی قوانین اور (ILO) کے ممبر کی حیثیت سے پاکستان  میںٹریڈ یونینز کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ دوسری طرف غور کیا جائے تو صنعتی اداروں میں ٹریڈ یونینز براے نام اور کنٹرولڈ ہے۔ گزشتہ 25 سالوں کے درمیان کسی صنعتی و سرکاری ادارے میں کسی بھی یونین نے ملک بھر میں کہیں ہڑتال کی ہے نہ ہی ہڑتالی نوٹس دیا ہے۔ کیونکہ ادارے کی CBA یونین ایک ہوتی ہے جو رجسٹرار آف ٹریڈ یونینز کی نگرانی میں ریفرنڈم میں حصہ لینے والی یونینز میں سے کامیاب ہوتی ہے۔ وہی اجتماعی سودا کاری ایجنٹ (CBA) کی حیثیت میں پہلے ڈیمانڈ نوٹس پھر ہڑتالی نوٹس دیتی ہے۔ اگر ڈیمانڈ نوٹس پر گفت و شنید کیلئے آجر یا ادارے کا سربراہ یونین کو دعوت دے تو ہڑتالی نوٹس کی نوبت ہی نہیں آتی۔ اگر ہڑتالی نوٹس کی نوبت آجائے تو پہلے محکمہ لیبر مداخلت کر دیتا ہے، محکمہ لیبر کی ناکامی کے بعد پریذائیڈنگ آفیسر جو سیشن جج کی سطح کے ہوتے ہیں وہ فریقین کو طلب کرلیتے ہیں۔ لیبر کورٹ جب محسوس کرے کہ یونین حق پر ہے اور انتظامیہ تعاون کیلئے تیار نہیں تو پھر لیبر کورٹ ہڑتال کی اجازت دیتی ہے۔اس کے برعکس جو ہڑتالیں پروفیسرز، ڈاکٹرز، ٹیچرز، کلرکس ایسویسی ایشنز کررہی ہیں جو کمپنی ایکٹ کے تحت ہڑتال کرنا تو درکنار ہڑتال کا لفظ بھی استعمال نہیں کرسکتیں۔ایسا اس لئے ہے کہ ہمارے ہاں ٹریڈ یونینز زبوں حالی کا شکار ہیں۔ ٹھیکیداری نظام کے تحت ملک بھر میں مزدوروں کا استحصال ہو رہا ہے۔ 12سے14 گھنٹے تک ڈیوٹی لی جارہی ہے، کوئی تحریری تعیناتی کی جاتی ہے نہ ہی برطرفی۔ مروجہ قوانین کے تحت واجبات و مراعات دی جاتی ہیں نہ رہائشی طبی سہولیات۔ اس ہوشرباء  مہنگائی میں مزدور کی تنخواہ 32 ہزار روہے مقرر کی گئی ہے۔ کیا اس تنخواہ میں مزدور دو وقت روٹی سے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھر سکتا ہے؟، تعلیم بجلی گیس اور مکان کا کرایہ اور علاج کروا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مزدور کیلئے جسم و روح کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ریاستی اداروں کی چیرہ دستیوں، بے جا ٹیکسسز، مہنگی بجلی اور مہنگی گیس اور آئے روز صنعتی ضروریات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ملکی مصنوعات کی قیمتوں سے بیرونی مصنوعات و ضروریات، ٹیکنالوجی کی قیمت حیران کن طور پر کم ہے جس میں مزدور کا کوئی قصور نہیں ہے۔ ضروری ہے کہ حکومت صنعتی اداروں کا پہیہ چلانے کیلئے اور مزدوروں کو روزگار کی فراہمی کیساتھ ساتھ ملکی ترقی کیلئے پالیسیاں نرم کرے، زرعی اجناس کی پیداوار بڑھانے کیلئے زراعت کے شعبہ کو ترقی دے، کسانوں کیلئے بجلی مفت یا سبسڈی پر دے، زرعی آلات کیمیائی کھاد، زرعی ادویات، ڈیزل میں سبسڈی دینے کی منصوبہ بندی کرے۔ آج کا بے روزگار نوجوان دیارِ غیر میں جانے پر مجبور ہے، بے روزگاری ہی کی وجہ سے لوگ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، سستا آٹا سکیم، لنگر خانوں کے لئے مجبور کر دیئے گئے ہیں۔
 ملک بھر میں اعدادو شمار کے مطابق 3 کروڑ بھکاری ہیں۔ سعودی عرب کے ایک شہر سے پکڑے گئے 4500 بھکاریوں میں سے 4200 بھکاری پاکستانی نکلے ہیں۔ ہمارے سیاستدانوں کو اقتدار اور موروثی سیاست کا بخار چڑھا رہتا ہے مگر ان کے پاس ملک و قوم اور دنیا کی ترقی کے مطابق کوئی پالیسی بنانے کی اہلیت نہیں ہے۔ اقتدار پرست حساس قومی اداروں پر تنقید کرکے عوام کو گمراہ کن نعرے تو دے رہے ہیں مگر عوامی خوشحالی کے پروگرام و قانون سازی کی اہلیت نہیں رکھتے ۔
  ملک بھر کے مزدوروں کو قومی سیاست میں  برابر شریک رکھنا ہمارے منتخب ایونوں کی ذمہ داری ہے۔ مزدوروں کو بھی اپنے حقوق کی خاطر شہدائے شکاگو کی قربانیوں کو مد نظر رکھ کر  متحد ہونا ہو گا ۔ اس  سلسلے میں حکومتی سطح پر  وزارت محنت سے مسائل کا جائزہ لے کر از سر نو  اصلاحات کئے جانے کی ضرورت ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن