پاکستانی سماج اور تکفیری مزاج

تفہیم مکالمہ ... ڈاکٹر جمیل اختر
jamillahori@gmail.com

تکفیر کا مسئلہ ایک انتہائی حساس موضوع ہے جو پاکستانی سماج میں مذہبی تنازعات، سماجی انتشار، اور فرقہ وارانہ تشدد کا سبب بنتا جا رہا ہے اور نتیجتاً مذہبی ہم آہنگی متاثر ہو رہی ہے۔ مختلف مسالک کے علماء اور مفتیان کرام اپنے اپنے فرقہ کی تعلیمات کے مطابق ایک دوسرے کے نظریات پر تنقید کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں تکفیر کے فتوے دیے جاتے ہیں۔ اس تکفیر کا نہ صرف اسلامی معاشرتی تانے بانے پر اثر پڑتا ہے بلکہ قومی سطح پر بھی اس کے سنگین نتائج سامنے آتے ہیں۔ تکفیر کا رجحان ایک طویل عرصے سے عالمی سطح پر گہرے اثرات مرتب کر رہا ہے جسے مختلف زاویوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک طرف یہ کسی ایک فرد یا گروہ کو کافر قرار دینے کا عمل ہوتا ہے، جو کہ محض فکری اختلافات کے نتیجے میں جنم لیتا ہے، جبکہ دوسری طرف اس کے نتیجے میں مسلم معاشروں میں نفرت اور دشمنی کا ماحول پیدا ہوتا ہے، جس سے نہ صرف داخلی امن متاثر ہوتا ہے بلکہ یہ عالمی سطح پر بھی اسلام کے خلاف منفی تاثر پیدا کرتا ہے۔ پاکستان میں تکفیری رجحان کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عالمی قوتیں تکفیر کو مسلم معاشروں میں انتشار اور تفرقہ پیدا کرنے، اختلافات بڑھانے اور مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ اس کی ایک مثال مختلف دہشت گرد تنظیموں کی سرگرمیاں ہیں، جو تکفیری نظریات کو پھیلانے کے ذریعے مسلمانوں کے درمیان دشمنی اور نفرت کو ہوا دے رہی ہیں۔ یہ صورت حال اس بات کی غماز ہے کہ تکفیر کا مسئلہ محض ایک فکری بحث نہیں بلکہ ایک سماجی اور سیاسی مسئلہ بھی بن چکا ہے، جس کا اثر پاکستان کے داخلی حالات پر بھی پڑ رہا ہے۔
علماءکرام اسلامی معاشرے کے فکری رہنمائی کے ذمہ دار ہیں اور ان پر اس بات کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس مسئلے کے حل کے لیے موثر اور متفقہ لائحہ عمل تیار کریں۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ علماءکرام اس چیلنج سے موثر طریقے سے نمٹنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بعض علماءکرام کی خاموشی اور غیر متوازن بیانات نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ یہ امر اس وقت اور بھی زیادہ واضح ہوتا ہے جب بعض علماءتکفیری رجحانات کے ساتھ سمجھوتہ کرتے ہیں یا ان کے بیانات ایسے ماحول میں مزاحمت پیدا کرتے ہیں، جس سے شدت پسندی کو فروغ ملتا ہے۔ اس کا حل صرف اس بات میں نہیں کہ علماءایک دوسرے کے فتووں کو نظر انداز کریں، بلکہ اس سنگین مسئلے کے حل کے لیے ایک مربوط حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔ اختلافات کو ختم کرنے اور امت مسلمہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے، کیونکہ وہ اس بات کا بہترین فہم رکھتے ہیں کہ اسلامی تعلیمات کا اصل مقصد انسانوں کے درمیان محبت، بھائی چارے اور امن کو فروغ دینا ہے۔ اس کے علاوہ، علماءکرام کو اس بات کا شعور ہونا چاہیے کہ وہ مسلمانوں کو شدت پسندی اور تکفیری رجحانات سے بچانے کے لیے ایک واضح اور متوازن پیغام دیں۔ اس کے لیے انہیں اپنے اختلافات کو پس پشت ڈال کر ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ مسلم معاشروں میں وحدت اور ہم آہنگی پیدا ہو سکے۔ علماء کو اس بات کا شعور بھی ہونا چاہیے کہ تکفیر سے پیدا ہونے والی دشمنی اور نفرت مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس لیے علماءکرام کو اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے فکری اور عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ انہیں فکری اختلافات کو ایک مثبت انداز میں حل کرنے کی کوشش کرنی ہوگی تاکہ مسلمانوں کے درمیان اختلافات نہ بڑھیں۔ اس مقصد کے لیے علماءکرام، حکومتی ادارے اور سول سوسائٹی کو مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ تکفیر کے منفی اثرات کو کم کیا جا سکے۔
اس سلسلے میں پاکستان کی اسلامی نظریاتی کونسل (CII) اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل میں ہر مسلک کے نمائندے موجود ہیں، تمام مسالک کے علماء مل کر تکفیری فتویٰ دینے والوں کے خلاف مناسب قانون سازی کر سکتے ہیں۔ اگرچہ اسلامی نظریاتی کونسل نے 27 نومبر 2018 کو منعقد ہونے والے اپنے 212ویں اجلاس میں واضح کیا تھا کہ کفر کے فتوے اور واجب القتل قرار دینے کی روش اسلامی اصولوں کے خلاف ہے۔ اسی طرح رواں سال چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی اس سے ملتا جلتا بیان دیا ہے، تاہم، کونسل کو چاہیے کہ وہ ترجیحی بنیادوں پر اپنا اجلاس بلائے اور تمام مسالک سے تعلق رکھنے والے کونسل کے تمام ممبر علماءکی یہ ذمہ داری لگائے کہ وہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر اپنے اپنے بیان ریکارڈ کروائیں جس میں وہ اپنے اپنے مسالک کے علماء کو پابند کریں کہ وہ کسی کی تکفیر نہیں کریں گے۔ اگر کسی نے تکفیر کا ارتکاب کیا تو اسے سخت سزا دی جائے اور اس پر بھاری جرمانے عائد کیے جائیں تا کہ لوگوں اور علماء کا تکفیری مزاج بدلے۔ تکفیر کے اس مسئلے کے سدباب کے لیے حکومت کو سخت قوانین بنانے اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو علماءاور مذہبی رہنماوں کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ حکمت عملی تیار کرنی ہوگی۔ اس حکمت عملی میں علماءکو یہ ذمہ داری دی جائے کہ وہ اپنے مسالک کے پیروکاروں کو تکفیر کے فتویٰ دینے سے روکے اور اس کے بجائے باہمی افہام و تفہیم اور رواداری کو فروغ دیں۔ اس کے علاوہ حکومت کو تکفیر کے فتووں کے خلاف قانونی کارروائی کرتے ہوئے ایسے تمام ملزم افراد یا گروپوں کو سخت سزا دینی چاہیے جو تکفیر کے فتویٰ کو بنیاد بنا کر فرقہ واریت اور شدت پسندی پھیلاتے ہیں۔ تکفیر کے فتووں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے عوامی سطح پر یہ شعور اجاگر کرنا ضروری ہے کہ تکفیر ایک ناپسندیدہ عمل ہے جس سے مسلم معاشرے میں انتشار اور اختلافات پیدا ہوتے ہیں۔ میڈیا، تعلیمی اداروں اور سماجی تنظیموں کو اس حوالے سے کردار ادا کرنا ہوگا۔ 
پاکستانی علماءکو اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ تکفیر کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے انہیں محض فکری سطح پر نہیں بلکہ عملی طور پر بھی کوششیں کرنی ہوں گی۔ کیونکہ اس مسئلے نے مذہبی ہم آہنگی کو شدید متاثر کیا ہے، اور یہ رجحان سماجی انتشار اور شدت پسندی کو فروغ دے رہا ہے۔ علماءکرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک متفقہ بیانیہ تشکیل دیں جو محبت، امن، اور رواداری کو فروغ دے۔ اسلامی نظریاتی کونسل اور حکومتی ادارے تکفیری فتووں کے سدباب کے لیے سخت قوانین نافذ کریں اور عوام میں شعور اجاگر کریں۔ تکفیر کے خاتمے کے لیے صرف قوانین نہیں، بلکہ سماجی و تعلیمی سطح پر مثبت تبدیلیاں لانا بھی ضروری ہیں تاکہ ہم ایک مضبوط اور یکجہتی والے مسلم معاشرے کی تشکیل کر سکیں۔

ای پیپر دی نیشن