بلاول کا عمران سے ممکنہ رابطہ

پاکستان پیپلز پارٹی ایک لبرل اور پروگریسو سیاسی جماعت ہے۔ افہام و تفہیم اور مفاہمت پی پی پی کی سیاست کا بنیادی اصول رہا ہے ۔ 1970ء  کے انتخابات کے بعد پی پی پی کو قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل تھی۔ وہ اپنے انتخابی منشور کی روشنی میں پاکستان کا نیا سوشلسٹ آئین منظور کرا سکتی تھی مگر اس نے اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لے کر مشاورت کے ساتھ ایک متفقہ آئین منظور کرایا ۔ 1973ء کے آئین کی تشکیل اور ترتیب چونکہ مفاہمت اور اتفاق رائے پر مبنی ہے اس لیے آمر جرنیلوں کے آئین پرحملوں کے باوجود یہ متفقہ آئین آج بھی وفاق کی سلامتی اتحاد اور یک جہتی کا ضامن ہے ۔ پی پی پی نے اپنے بانی چیئرمین کی پھانسی کے بعد بھی مفاہمت کے اصول کو ترک نہیں کیا تھا اور جمہوریت کی بحالی کے لیے دوسری سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کر کے ایم آر ڈی کے نام سے سیاسی اتحاد تشکیل دیا  اور جنرل ضیاء الحق کے طویل مارشل لاء کا مقابلہ کیا ۔ 1988ء کے انتخابات کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لینے کی بجائے ملک کے وسیع تر مفاد میں مفاہمانہ کردار ادا کیا ۔ جنرل پرویز مشرف نے پی پی پی اور دوسری قومی سیاسی جماعتوں کو کمزور کرنے کے لیے ریاستی حربے اور ہتھکنڈے استعمال کیے۔ اس کے باوجود محترمہ بے نظیر بھٹو نے 2007ء  میں مفاہمت کے نام پر ایک کتاب تحریر کی جس میں پاکستان کے سب سٹیک ہولڈرز کو قومی اور عوامی مفاد میں مفاہمت کی پیشکش کی گئی ۔ اور کہا گیا کہ اس وقت کے معروضی حالات میں پاکستان کو مفاہمت کے اصول پر ہی بحرانوں سے باہر نکالا جا سکتا ہے ۔ صدر آصف علی زرداری نے 2008ء سے 2013ء تک سیاسی مخالفین سے انتقام لینے کی بجائے مفاہمت کے اصول پر عمل کرتے ہوئے متفقہ 18ویں ترمیم منظور کرائی اور 23 مارچ 1940ء کی تاریخی قرارداد کی روح کے مطابق صوبوں کو خود مختاری دی گئی۔
پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پارٹی کے بنیادی اصولوں پر عمل پیرا ہیں۔ انہوں نے گورنر ہاؤس لاہور میں کارکنوں کے اعزاز میں افطار ڈنر کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو ثالثی کی پیشکش کی اور قومی مفاہمت کے لیے بانی پی ٹی آئی  سے ملاقات کرنے کا عندیہ بھی ظاہر کیا ۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ پی پی پی چونکہ حکومت کی اتحادی جماعت ہے اور اپوزیشن کا کردار بھی ادا کر رہی ہے لہذا وہ تحریک انصاف کے لیڈروں سے مذاکرات کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ جو جماعتیں پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی کے پہلے اجلاس میں شریک نہیں ہوئی تھیں ان سے دوبارہ رابطہ کر کے ان کو آمادہ کیا جا سکتا ہے ۔ وزیر وزیراعظم کے سیاسی مشیر اور سابق وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے بلاول بھٹو کی ثالثی کی پیشکش کو معروضی حالات کے تناظر میں خوش آئند قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اگر بلاول تحریک انصاف کو قومی اتفاق رائے پر آمادہ کر لیں تو قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس دوبارہ بھی طلب کیا جا سکتا ہے ۔ بلاول بھٹو اور عمران خان دونوں ایک دوسرے پر سیاسی حملے سے گریز کرتے رہے ہیں جبکہ مولانا فضل الرحمن ہر عوامی جلسے میں عمران خان کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔ اس معاندانہ اور غیر شائستہ رویے کے باوجود تحریک انصاف کے لیڈروں نے  مولانا فضل الرحمان سے کئی بار مذاکرات کیے ہیں ۔ بلاول بھٹو اور پی ٹی آئی کے لیڈروں کے درمیان مذاکرات بھی عین ممکن ہیں ۔ تحریک انصاف میں شامل اہم لیڈروں شاہ محمود قریشی، بابر اعوان،  بیرسٹر گوہر، فواد چودھری، لطیف کھوسہ پی پی پی میں شامل رہے ہیں جو پی پی پی اور تحریک انصاف کے درمیان اشتراک اور مفاہمت کے لیے مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں اور بلاول بھٹو کی ثالثی کی کوششوں کو کامیابی سے ہمکنار کر سکتے ہیں ۔ عمران خان کے لیے بلاول بھٹو سے ملاقات کرنا مشکل نہیں ہوگا کیونکہ ابھی تک ان کے خلاف کرپشن کا کوئی سکینڈل سامنے نہیں آیا ۔ پی پی پی کے لیڈر اعتزاز احسن کی عمران خان کے ساتھ پرانی دوستی ہے۔ وہ بھی مفاہمت کی کامیابی کے لیے مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ بلوچستان کے سردار اختر مینگل اور دوسرے قوم پرست لیڈروں کو بھی مشاورت اور مفاہمت کا حصہ بنانا پڑے گا ۔ سیاست ممکنات کا کھیل ہے عمران خان ووٹ بینک کی وجہ سے پاکستان کے سب سے پاپولر لیڈر ہیں مگر عوامی طاقت کے باوجود وہ ابھی تک عملی طور پر سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرنے سے قاصر رہے ہیں ۔ 
بلاول بھٹو اور پی پی پی کو پنجاب میں سپیس کی ضرورت ہے یہ سپیس تحریک انصاف ہی دے سکتی ہے ۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں دہشت گردی کے ناسور اور معاشی دیوالیہ پن کا مقابلہ کرنے کے لیے قومی اتفاق رائے اور مفاہمت پر رضامند ہو جائیں تو تاریخ اور آنے والی نسلیں انہیں سنہری الفاظ میں یاد رکھیں گی ۔ پاکستان کے طاقتور ریاستی ادارے اور سیاسی و مذہبی جماعتیں موجودہ حالات کی سنگینی کا پورا ادراک رکھتی ہیں ۔ یہ سب پاکستانی ہیں اور ان کے دل یہ گواہی دیتے ہیں کہ دہشت گردی اور معاشی ابتری کا مقابلہ قومی اتفاق رائے سے ہی کیا جا سکتا ہے ۔ بلاول بھٹو چونکہ موجودہ سیٹ اپ کے اہم سٹیک ہولڈر ہیں لہذا وہ اگر خلوص نیت سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جمہوری اصولوں اور آئین کے تقاضوں کی روشنی میں ثالثی کا کردار ادا کرنے پر سنجیدہ اور یکسو ہو جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان کا موجودہ سیاسی اور معاشی بحران حل نہ کیا جا سکے ۔ راقم اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے لیڈروں اور ریاستی اداروں کے سربراہان کو جس حب الوطنی، عزم اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا اس میں  سب ناکام ثابت ہوئے ہیں ۔ جب ہم سب ذاتی سیاسی اور گروہی مفادات کو قومی مفادات کے تابع کر لیں گے تو ہماری مشکلات آسان ہوتی جائیں گی ۔

ای پیپر دی نیشن