اب کیسی صحافت اور کیسے حقوق ؟؟؟

یوں توجنت نظیر ٹکڑا کشمیر چناروں کی وادی بہتر برسوں سے انگاروں کی طرح سلگ رہی ہے لیکن گذشتہ چند سے بھارت نے وہاںانسانیت سوز مظالم کا جو سلسلہ رواں کر رکھا ہے اس کی مثال ہمیں بہتر برسوں میں بھی نہیں ملتی۔۔ دل پھٹتا ہے، آنکھیں لہو روتی ہیں اور ہوائیں بین کرتی ہیں مگر کوئی شخص کوئی ٹائم فریم نہیں دے سکتا کہ کشمیریوں کو مصائب تلے کب تک رات گزارنی ہوگی 5 اگست 2019ء کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے مقبوضہ وادی کو عقوبت خانے میں تبدیلی کر دیا تھا اس ظلم و زیادتی کو پانچ برس اور پانچ ماہ بیت چکے ہیں۔۔آہ۔۔کس قدر بے حسی ہے، انصاف کے دعوے دار چپ چاپ تماشائی بنے بیٹھے ہیں،مظالم کی داستان اتنی طویل ہے کہ لفظوں سے لہو ٹپکتا ہے۔۔قابض فوج کے ہاتھوں عورتوں کی اجتماعی آبرو ریزی ، گھروںاورعبادت گاہوں کی مسماری ، بوڑھوں اور بچوں کے زندہ جسموں کو رگیدنا ،پیاروں کی لاشوں کو نوچناعام معمول بن چکا ہے۔ ان روح فرسا مظالم کی ویڈیو ز دیکھ کر کسی بھی انسان کا دل بند ہو سکتا ہے مگر یوں لگتا ہے جیسے دنیا کے منصفوں کے سینے میں دل ہے ہی نہیں سبھی تماشا دیکھ رہے ہیں حد تو یہ ہے کہ بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن بھی منتخب ہوا، کیا قیامت ہے کہ کشمیر تڑپ رہا ہے اور اس کے جسم پر دنیا کی سپر پاورز فاتحانہ انداز میں کسی بن مانس کی طرح دونوں ہاتھوں سے سینہ پیٹ پیٹ کر فتح کا نعرہ لگا رہی ہیں حقائق سے ہم سب آگاہ ہیں۔میں اس کی وضاحت میں نہیں جائوں گیالبتہ اب اس کا سوال کا جواب تلاش کرنا ہوگا کہ اس مسئلے کا حل پاک بھارت نے یا اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد UNO نے کروانا ہے یا دونوں ممالک کی مسلح افواج اور عوام نے کرنا ہے یا ہمارے حکمرانوں نے منافقت اور عیاری سے’’ ڈھنگ ٹپائو‘‘ فارمولے پر عمل پیرا رہنا ہے ؟
اگر ہم 1947ء سے ابتک کے حکومتی ادوار کا عمیق نظری سے مطالعہ کریں تو یہ حقیقت ہم پر آشکار ہوتی ہے کہ ہمارا وطن نا تجربہ کار سیاستدانوں ،اقتدار پسند جرنیلوں ،اور مخصوص مفادات کی حامل بیورو کریسی کے رویوں میں الجھ کر اپنا تشخص دائو پر لگا بیٹھا ہے۔حاکم اپنا دور حکومت سمیٹنے اور آئندہ کے لیے حکومتی وسعتوں کو یقینی بنانے کے لیے انتظامات کرنے میں کوشاں ہے اور اس ملک کو کھوکھلے نعروں اور بلند و بانگ دعووں کی بھینٹ چڑھا رکھا ہے۔رہی سہی کسر فیوڈل نظام نے نکال دی ہے جن کے سامنے انسان ڈھور ڈھنگروں سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا پھر ہم کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ کشمیر کازکے لیے ہمارا کوئی سربراہ آواز بلند کرے گا بالفرض اگر کوئی کشمیر کاز کاداعی ہے بھی تو اس کا یہ دعوی بھی رکھ رکھائو اور رسمی ڈائلاگ پر منحصر ہے۔ آج بیرونی طاقتیں اور ہمارے ایوان بالا بھی اپنے مفادات کے شکنجوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔جس کا کھلا ثبوت 2014 ء میں ڈاکٹر غلام نبی فائی کو دی جانے والی ناحق سزا سے ملتا ہے جب انھیں مسئلہ کشمیر پر غیر قانونی لابنگ کرنے ،پاکستان کی خفیہ ایجینسی سے رقوم وصول کرنے اور اس کا ایجنٹ ہونے کا الزام لگا کر دو سال قید اور بعد از رہائی تین سال ان کی زندگی کی نگرانی کی سزا سنائی گئی تھی۔حالانکہ ان کا بنیادی مقصد امریکہ میں مسئلہ کشمیر پر حمایت حاصل کرنا تھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر فائی کی گرفتاری اور سزا سے کشمیر کاز کو دھچکا لگا تھا مگر اس سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ کشمیریوں کی آہ و بکا کے ذمہ دار صرف بھارتی سامراج ہی نہیں بلکہ پس پردہ چھپے کئی رستم ہیں ،جو حمایت کے روپ میں اپنے مفادات کو پروان چڑھاجاتے ہیں۔
نام نہاد انسانی حقوق کے علمبرداروں اور ظالموں کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ مظلوموں کے لئے آواز اٹھانے والوں کوصرف راستے سے نہیں بلکہ صفحہ ہستی سے بھی مٹا دیا جائے ،کشمیر کاز کو دبانے کے لیے بھی بعض راہنمائوں کو امریکہ کے حوالے کرنے کے لیے بھارت کی طرف سے مسلسل پاکستان پر دبائو ڈالنے اور اس کی راہ ہموار کرنے کے لیے ایسے پچیدہ حالات پیدا کئے جاتے رہے ہیں کہ جن کے سبب پاکستانی حکمران بے بس ہو جائیں لیکن کسی نے نہیں سوچا کہ وہ انصاف و قانون کا جونمائشی ڈھول پیٹتا پھرتارہتا ہے اس کی عملداری کہاں ہے ؟ بلکہ اپنے غیر قانونی اقدامات اور ظلم و ستم کو جواز دینے کے لیے کبھی آزادیٔ اظہار رائے کا نام دیکر ’’ توہین آمیز خاکوں ‘‘ کی شکل میں عالمی دہشت گردی کی پشت پناہی کی جاتی ہے، کبھی عافیہ صدیقی جیسے معصوم بے گناہوں کو نا کردہ گناہوں کی پاداش میں لا محدود عرصہ کے لیے پابند سلاسل رکھا جاتا ہے اور کبھی ڈاکٹر غلام نبی فائی کی آواز کودبا دیا جاتا اور پاکستانی حکام کا منہ’’ بھیک ‘‘کے طور پر دئیے گئے قرضوں کے احسانات سے بند کر دیا جاتا ہے !آج یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ’’ اسلام دشمنی ‘‘نے اقوام عالم کو بے حس بنا رکھاہے اور امت مسلمہ اپنی بے ہمتیوں اور تساہل پسندی کی وجہ سے ان کے مضموم مقاصد کا نشانہ بن رہی ہے یقینایہ ’’عالمی دہشت گرد ‘‘انسانی روحوں پر وار کرتے ہیں ، الٹا ہمیں طنز و تضحیک کا نشانہ بنا تے ہیں اگر ہم میں کس بل ہوتے تو دنیا کو بہا کر لے جاتے جیسے تین سو تیرہ تھے تو لرزتا تھا زمانہ لیکن اپنے ہی مسائل میں اس قدر الجھ چکے ہیں کہ کسی دوسرے کی تکلیف دور کرنے یا امداد کی ہمت ہی نہیں رہی بالفرض مل بھی جائے تو چند دن کا ماتم کرتے ہیں اور حادثہ بنا کر فراموش کر دیتے ہیں۔اور کیوں نہ کریں کہ ہم خود اس وقت تاریخ کے سیاہ ترین دور سے گزر رہے ہیں۔۔ راہبر ہی راہزن بن چکے ہیں ،قانون و انصاف کے ادارے جکڑے جا چکے ہیں کہ وہ خود تنگ آکر کہہ رہے ہیں ’’تاریخ کبھی معاف نہیں کرتی ‘‘ تو ایسے میں ہم کشمیریوں کے درد کا درماں کیسے کر سکتے ہیں کہ ہمارے جسم چھلنی اور آنکھیں نوحہ کناں ہیں۔۔!
مجھے کہنے دیجیے کہ پیکا ایکٹ آزادی صحافت پر صریحاً قدغن ہے کیونکہ پہلے صحافی اداروں کے خلاف بات نہیں کر سکتا تھا اور اب حکمرانوں کی اصلاح کے لیے بھی قلم نہیں اٹھا سکتا تو صحافت کیسی۔۔۔۔۔؟صحافت تو اصلاح کا دوسرا نام تھا جسے اسلامی ریاست کے عوامی نمائندے بغاوت سمجھنے لگے ہیں تو بہتر ہے کہ پاکستان سے شعبہ صحافت کو ختم کر دیںتاکہ جمہوریت کا ڈھکوسلا ختم ہو ویسے بھی پاکستان میں جمہوریت نہیں شخصی آمریت ہوتی تھی مگراب جو کچھ ہو رہا ہے وہ آمرانہ ادوار میں بھی نہیں دیکھا گیا اور ہر گزرتا دن عوام الناس کے دلوں میں نفرت بڑھا رہا ہے کیونکہ بنیادی حقوق ہی نہیں چھینے جا رہے بلکہ خوف کی فضا پیدا کردی گئی ہے جس میں وردی اور کیپ کو استعمال کیا جارہا ہے۔لیکن! ہمیں یقین ہے کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا مگر اس کے لیے عوام کو جاگنا ہوگا اور اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا ہوگی اور پہلے ہمیں اپنے حقوق کی جنگ لڑنا ہوگی! پھر ہم کشمیریوں کے حقوق کے لیے مغرب کے انصاف پسند حلقے کو اپنی طرف مائل کر سکیں گے کیونکہ ہم کشمیریوں کے لیے آواز تب اٹھا سکتے ہیں جب ہمیں یقین ہوکہ ہماراانجام بھی وہ نہیں ہوگا جو آواز اٹھانے والوں کا ہوا۔افسوس تو یہ ہے کہ اس صدی میںکہ کھوپڑیوں کے میناروں کے ستم سے دنیا نکل چکی اور ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ کیسی صحافت اور کیسے حقوق ؟؟؟

ای پیپر دی نیشن