گھوڑاایک وفادار جانور ہے جنگوں کی جیت یا پھر لمبے سفر کی تکمیل میں ماضی ہو یا پھر حال اس انسان دوست جانور کی اہمیت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کیونکہ یہ اپنے مالک سے وفاداری میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا اور اس کے اشاروں کو بہت جلد سمجھ جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ انسان گھوڑوں پر سرمایہ کاری میں دیر نہیں لگاتا یہاں تک کہ آج 360 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی بلٹ ٹرین کے معرض وجود میں آنے کے باوجود گھوڑوں کی خرید و فروخت اور سٹے بازی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ وطن پاکستان میں گھوڑوں کے کس کس کاروبار کا ذکر کیا جائے اور کس کس کا نہیں، زیادہ پیچیدہ سوال نہیں البتہ دفاع ،مال برداری اور سواری کے طور پر اسے استعمال کرنے کے علاوہ ہمارے ہاں سیاست میں گھوڑا بڑا کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ آپ بھی حیران ہو رہے ہوں گے کہ راقم کیسی سٹھیائی سٹھیائی باتیں کر رہا ہے کہ گھوڑا اور سیاست تو جناب پریشان مت ہوں گھوڑے اور پاکستانی سیاست اور سیاست دانوں کا آپس میں بڑا چولی دامن کا تعلق ہے۔
تو جیہات جانیں گے تو اپ بھی قائل ہو جائیں گے تو شروع کرتے ہیں زبان زد عام کے اس لفظ سے جس کو آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ بتائیں کب بولا جاتا ہے جی یہ تب بولا جاتا ہے جب پاکستان میں سینٹ یا قومی اسمبلی کے انتخابات پایا تکمیل کو پہنچتے ہیں اور فلور کراسنگ کے لئے بھاری رقوم کے بدلے میں پارٹی وفاداری بدلنے والے معزز ممبر کو عرف عام میں گھوڑا ہی کہا جاتا ہے جن پر کنگ میکر یا گارڈ فادر اپنی مرضی اور منشا کی حکومت بنانے کے لیے اور گھوڑوں کی خرید کے لیے پانی کی طرح پیسہ بہاتے ہیں اوریہاں تک تو بات سمجھ میں آتی ہے مگر ان دنوں ملک میں سیاسی گھوڑوں کے ساتھ ساتھ بیورو کریٹک گھوڑے بھی دستیاب ہیں۔ اب یہ کون سی نئی اخترا ع ہے تو جناب من اس کی بھی ایک تو جیہہ ہے اور وہ یہ کہ کنگ میکر سیاسی گھوڑوں کو اپنی سیاسی بقا کے لیے خریدتے ہیں اور پھر یہی حکمران سیاسی گھوڑے بیوروکریسی کوبھی بطور گھوڑا استعمال کرتے ہیں۔
اپنی طاقت اورسیاسی بقا اور سفر کے لیے یہاں تک کہ قانون سازی کے ذریعے افسر شاہی کے گھوڑوں کو تحفظ کی ضمانت بھی دی جاتی ہے لیکن یہاں تھوڑی سی تصیح کر لی جائے کہ وطن عزیز میں ایسے بیوروکریٹک گھوڑے 30 فیصد کے لگ بھگ ہوں گے جو کہ سیاست دانوں اور افسر شاہی کے مابین طاقت کے توازن و تبادلہ کے غیر اعلانیہ اور غیر مرئی سمجھوتہ پر سختی سے عمل پیرا ہوتے ہیں۔ افسر شاہی گھوڑے کی یہ نظیر ہمیں آج کل صوبہ سندھ میں دیکھنے کو مل رہی ہے جہاں اعلیٰ تعلیم کو داؤ پر لگا دیا گیا ہے۔حکومت سندھ کے ایک حکم نامہ کے تحت سندھ کی تمام یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کو بیوروکریٹس میں سے لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو کہ تعلیمی موت کے پروانے پر دستخط سے کم نہیں ہے۔ اس وقت سندھ بھر کی جامعات نہ صرف سراپا احتجاج ہیں بلکہ رد عمل کے طور پر پانچ روز سے درس و تدریس کا عمل بھی روک دیا گیا ہے۔ سربراہان کی تعیناتی کے لیے بیوروکریٹس کا انتخاب اور ایڈہاک اساتذہ کی تقرری کے معاملہ میں سندھ حکومت اور جامعات کے درمیان پیدا ہونے والا تنازعہ سنگین ڈیڈ لاک کا شکار ہو چکا ہے۔ اپنی نوعیت کے نامناسب قانون سازی پر ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان اور یہاں تک کہ پیپلز پارٹی کے سینیئر ترین سینیٹر رضا ربانی نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے لیکن سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری جو کہ خود لندن کی اعلیٰ ترین یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ہیں بلکہ صوبے کے وزیرا اعلیٰ سید مراد علی شاہ بھی برطانیہ سے تعلیم یافتہ ہیں۔ وہ اس طرح کے عجیب فیصلے کی تائید کیسے کر سکتے ہیں اور اس کے دفاع میں میدان میں کیسے اتر سکتے ہیں؟ کیا انہیں یہ علم نہیں کہ دنیا کی اعلی ترین یونیورسٹیاں خود مختاری کے اصول پر کاربند ہوتی ہیں اور ان کا سربراہ تعلیمی میدان میں ڈاکٹریٹ ہونے کے ساتھ ساتھ وسیع تر تجربات کا حامل ہوتا ہے جو کہ جدید تعلیمی تقاضوں اور ترجیحات کو سمجھتے ہوئے اختراعی سوچ کا بھی مالک ہوتا ہے۔ سادہ بی اے ایم اے پاس افسر لگانا کسی بھی قسم کا غیر دانشمندانہ قدم ہے۔ کالونی ازم کے دور کی عکاسی کرتا ہے جس کی مثال ایسے ہی ہے کہ ایک منشی کو تھانہ کا ایس ایچ او لگا دیا جائے یا ایک کلرک کو کالج کاپرنسپل لگا دیا جائے۔ دیکھا جائے تو وی سی کے لیے افسر شاہی کا انتخاب بھی افسر شاہی گھوڑے کے تانوں بانوں سے ملتا ہے جس کا مقصد تعلیم کا فروغ نہیں بلکہ یونیورسٹیوں کے کثیرو خطیر بجٹ ہے جو کہ سیاست دانوں کی آنکھوں میں کاروباری پیرامیٹر سے کم نہیں ہے۔
ماضی میں مالکوں کے اپنے گھوڑوں سے محبت کے بڑے بڑے واقعات موجود ہیں۔ ایک واقعہ کچھ یوں ہے کہ :رومن سلطنت میں کیلی گولا نام کا ایک شہنشاہ گزرا ہے جسے بدنام زمانہ کہانی کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے تاریخ دان سیٹو ٹیس کے مطابق اسے اپنے گھوڑے انسٹیٹس سے بڑی محبت تھی اس نے اس جانور پر توجہ اور دولت کی بہتات کر دی۔ہزاروں سال قبل اس نے سنگ مرمر کا اصطبل بنا کر دیا اور سونے میں ملا چو کر یعنی جئی سے اس کی تواضح کرتا رہا۔ یہاں تک تو بات سمجھ اتی ہے مگر جو بات ہمیشہ کیلی گولا کے لئے مذاق اور حماقت کا ذریعہ بنی وہ اس کا اپنے گھوڑے انسیٹیٹس کو بطور کونسل مقرر کرنا تھا جو کہ رومن سینٹ کا اعلی ترین سیاسی عہدہ تھا اب اس گھوڑے کو کیا پتہ کہ سینٹ کیا ہوتا ہے لیکن شہنشاہ نے اسے نواز دیا۔
بالکل اسی طرح حسب اختلاف اور حسب اقتدار دونوں ادوار میں مالکوں کے اگے پیچھے خدمت گزاری کرنے والی اس افسر شاہی کو کیا پتہ کہ یونیورسٹیاں اعلیٰ رینکنگ میں کیسے آتی ہیں اور تحقیقی مقالہ جات کس با غ کی مولی ہیں، ان کی بلا سے۔بس ان کو تو شہنشاہ نے نوازنا ہے مال اور طاقت سے چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو دیگر صوبوں کی نسبت سندھ میں تعلیم کی بات کی جائے تو سکولوں کی صورتحال پہلے ہی ابتر ہے۔ معیار تعلیم پست ہے جبکہ ہزاروں گھوسٹ سکول ابھی تک کام کر رہے ہیں۔
اس سارے منظر نامہ کے تناظر میں سندھ حکومت کا بنیادی ایشو حل کرنے کی بجائے اپنی استطاعت اور حیثیت سے ہٹ کر عجوبہ قسم کے قوانین کے ذریعے اعلی تعلیم پر قدغن لگانا انتہائی لمحہ فکریہ ہے۔
٭٭٭٭٭٭