میئر استنبول کی گرفتاری، مظاہرے ترکیہ کے 55 صوبوں تک پھیل گئے: جمہوری اقدار کا تحفظ کیا جائے: یورپی یونین، فرانس، جرمنی

استنبول (نوائے وقت رپورٹ+ این این آئی) ترک پولیس نے صدر رجب طیب اردگان کے حریف اور استنبول کے سابق میئر اکرم امام اوغلو کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں مظاہرے جاری پکڑے جانے والوں میں کئی صحافی بھی شامل ہیں۔ امام اوغلو کی بدعنوانی اور دہشت گردی کے الزامات میں گرفتاری کے بعد احتجاج کا سلسلہ استنبول سے ترکی کے 55 سے زائد صوبوں تک پھیل چکا ہے، جہاں مظاہرین اور پولیس کے درمیان شدید جھڑپیں ہو رہی ہیں۔ 53 سالہ امام اوغلو کو ترکی کا وہ واحد سیاستدان سمجھا جاتا ہے جو 2028ء کے انتخابات میں اردگان کو شکست دے سکتا تھا۔ ان کی گرفتاری کو سیاسی انتقام اور اردگان کے اقتدار کو مستحکم کرنے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔ امام اوغلو کی جیل میں منتقلی پر عالمی برادری بھی سخت ردعمل دے رہی ہے۔ جرمنی، یونان، فرانس اور یورپی یونین نے اس کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے ترکی پر جمہوری اصولوں کو برقرار رکھنے کا دباؤ بڑھا دیا ہے۔ فرانسیسی وزارت خارجہ نے اس اقدام کو "جمہوریت پر سنگین حملہ" قرار دیا، جبکہ یورپی یونین نے کہا کہ ترکی کو جمہوری اقدار کے تحفظ کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ذرائع کے مطابق استنبول اور انقرہ کی جامعات کے طلبہ نے احتجاجاً کلاسز کا بائیکاٹ کیا اور حکومت کے خلاف نعرے لگائے۔ اسی دوران، 1400 جی ایم ٹی پر بشکتاش پورٹ پر مظاہرے کی تیاریاں جاری ہیں، جبکہ 1730 جی ایم ٹی پر استنبول سٹی ہال کے باہر ایک بڑا احتجاجی اجتماع متوقع ہے۔ ترکی میں جاری یہ بدترین سیاسی بحران اردگان حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے، جبکہ مظاہروں کے بڑھنے سے ملک میں مزید کشیدگی کا خدشہ ہے۔ ادھر ترک صدر رجب طیب اردگان نے مرکزی اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے اہم سیاسی حریف استنبول کے میئر کی قید کے خلاف احتجاج ایک پرتشدد تحریک میں تبدیل ہو گیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق انقرہ میں کابینہ کے اجلاس کے بعد خطاب کرتے ہوئے اردگان نے مزید کہا کہ احتجاج کے دوران پولیس افسروں کی املاک کو پہنچنے والے کسی بھی نقصان کی ذمہ دار حزب اختلاف کی مرکزی جماعت ریپبلکن پیپلز پارٹی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کا کھیل بالآخر ختم ہو جائے گا اور وہ اس "برائی"  پر شرمندہ ہوں گے جو انہوں نے ملک کے خلاف کی ہے۔

ای پیپر دی نیشن