قدرتی آفات سے بچائوکے امکانات

قدرتی آفات میں خوراک، طوفانی سیلاب اور کوئی بھی ایسی آفت ہے جو اچانک آتی ہے قدرتی آفات میں شامل ہوتی ہے۔ ممالک میں آپس کی جنگوں کے نتیجہ میں قدرتی آفات نمودار ہوتی تھیں اور خوراک کا مسئلہ پیدا ہوتا تھا۔ جس کے نتیجہ میں لاکھوں افراد بھوک و افلاس سے مرتے۔ اقوام متحدہ کی ذیلی ادارہ ورلڈ فوڈ پروگرام نے اب اس بحران کا شدید خطرہ ظاہر کیا ہے کہ 2021ء میں 12 ممالک قحط کے خطرات سے نہیں بچ پائیں گے۔ بلکہ ان خطرات اور ممالک میں وسعت بھی آ سکتی ہے۔ خوراک کی قلت شدید خوراک کے بحران میں شامل ہوتی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ دنیا بھر میں جاری جنگوں کے سبب اور اسکے اثرات سے ایک نیا بوجھ ابھر کر سامنے آ رہا ہے۔ پسماندہ ممالک میں قدرتی آفات منصوبہ بندیوں کی غلطیوں سے آتے ہیںجس سے نقصانات زیادہ ہوتے ہیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک اپنے وسائل بہتر ہونے کے سبب ان پر قابو بھی پا لیتے ہیں اور قدرتی آفات کی بحالی کا عمل بھی تیزی سے سرانجام دے لیتے ہیں کہ وفا بھی قدرتی آفات ہے۔ یونیسف کا کہنا ہے دنیا بھر کے سوا ارب طلبہ انٹرنیٹ کی سہولت سے محروم ہونے کے سبب تعلیم کے حصول میں مشکلات کا شکار ہیں جبکہ پاکستان میں چار کروڑ بچوں کے پاس انٹرنیٹ نہیں ہے۔ کرونا جیسی قدرتی آفت سے اگرچہ دنیا بھر کی معیشت شدید متاثر ہوئی ہے جس کی بحالی اور مضبوطی چند سالوں میں ممکن ہو جانی ہے لیکن طلبہ کی تعلیم کا جو نقصان ہوا ہے اسکی بحالی ممکن نہیں ہے۔ قدرتی آفات سے بچائو کیلئے نہ صرف عالمی سطح پر ڈیزاسٹر مینجمنٹ محکمے قائم ہیں بلکہ پاکستان میں صوبائی اور وفاقی سطح پر بھی یہ ادارہ کام کر رہا ہے لیکن اسکے انتظامی امور اور قبل ازیں قدرتی آفات سے بچائو کیلئے اسکی منصوبہ بندی میں آفات اکثر آتی ہیں۔ اب بلکہ قدرتی آفات کی قبل از وقت آگاہی کیلئے ٹیکنالوجی بھی سامنے آ گئی ہے جس کے سبب اب نقصانات کے امکانات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان اور دیگر ممالک میں بہت سے فلاحی ادارے بھی قدرتی آفات جب آتی ہیں اسکی بحالی کے اقدامات اقدامات کرتے ہیں۔ ریڈ کراس بین الاقوامی سطح پر متحرک ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں بہت سے فلاحی اداروں کے منشور میں قدرتی آفات کی بحالی اور متاثرین کو امدادی اشیاء مہیا کرنا بھی شامل ہیں۔ قدرتی آفات سے بچائو کیلئے جہاں حکومت کے فرائض ہیں اور ذمہ داریاں ہیں وہاں عوام نفرادی اور مجموعی طور پر حکومت کے اس ایشو پر نہ صرف اقدامات کر سکتی ہے بلکہ قدرتی آفات آنے سے قبل اس سے بچائو اور کم نقصانات میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جب قدرتی آفات آتی ہیں تو اس کی بحالی پر کئی سال لگ جاتے ہیں۔ جس کے سبب معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور بجٹ پر بھی بوجھ پڑ جاتا ہے۔
قدرتی آفات کی آمد کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ جب سے کائنات کا وجود عمل میں آیا ہے قدرتی آفات ہر دور بلکہ انیاء کے دور میں بھی آتی رہی ہیں اور اس کے نقصانات سے ریاست اور حکومتی مشینری سرگرم عمل رہی ہے۔ حکومتی ادارے اور فلاحی غیر حکومتی اداروں کو چاہیے کہ وہ قدرتی آفتوں سے بچائو کیلئے بر وقت آگاہی مہم شروع کریں تا کہ خاندانی سطح پر بچائو کے اقدامات بھی ممکن ہو سکیں۔ اسلامی نقطہ نظر سے قدرتی آفتاب کا تعلق اعمال سے بھی ہے اور اعمال کی وجہ سے پریشانیاں آتی ہیں۔ اگر اعمال اچھے ہوں گے تو قوم پر قدرتی آفتاب کم آتی ہیں۔ انسان غلط اور درست ذرائع سے دولت اکٹھی کرنے میں لگا رہتا ہے لیکن اسکی ایسی دولت ایک ہی طوفان سیلاب یا زلزلہ کی نذر ہو جاتی ہے۔ ایسی قدرتی آفات کا نزول ایسی قوموں یا ملکوں پر آتے ہیں جو دین اسلام سے دور ہو جاتے ہیں۔ قدرتی آفات کو روکنا انسان کے بس میں نہیں ہوتا ہے۔ قحط کا آنا بھی قوموں کے اعمال پر منحصر ہونا ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کیمطابق ایک بلین سے زائد آبادی والے شہروں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور جہاں آبادی ممالک میں زیادہ ہو گی قدرتی آفات سے وہاں نقصانات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ ایشیائی ممالک میں قدرتی آفات زیادہ آتی ہیں۔ ایشین ڈویلپمنٹ بنک کیمطابق دنیا بھر میں 2008ء تک 3.3 فیصد افراد شہروں میں رہتے تھے جبکہ 2030ء تک انکی تعداد پانچ بلین تک پہنچ جائیگی۔ قدرتی آفات کی بنیادی وجوہات میں کچی آبادیاں اور جنگلات کی کمی ہے۔ فرانس، جاپان، جرمنی اور یورپی امیر سے امیر ممالک میں سیلاب اکثر آتے ہیں جس کے سبب یہ ممالک کئی ماہ تک بحالی کے کام جاری رکھتے ہیں۔ ورلڈ رسک انڈیکس کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی قدرتی آفت کے خطرے اور اسکی شدت سے کہیں زیادہ اہم بات یہ ہے کہ کسی معاشرہ کو کس حد تک کسی آفت سے نقصان پہنچ سکتا ہے۔ پی ڈی ایم وہ نہیں جو جلسے جلوس کر رہی ہے بلکہ اس کا مطلب ہے پاکستان ڈیزاسٹر مینجمنٹ جو اپنے افعال اور حکمت عملیوں کو بھرپور طریقہ سے سرانجام نہیں دے رہی ہے۔ قدرتی آفات کے دفاتر کو دائرہ کار ریاست کو اضلاح تک بڑھانا چاہیے جبکہ قدرتی آفتاب کی ذمہ داریاں اضلاع کی سطح پر ڈپٹی کمشنر، کمشنر یا بلڈنگ محکمہ کے پاس ہوتی ہیں۔ عوام میں قدرتی آفات کی بحالی، نقصانات سے بچائو اور کم نقصانات کے بارے میں آگاہی پروگرامز بھی ترتیب دینے چاہئیں۔ قدرتی آفات میں بیماریاں پھیل جاتی ہیں اور خصوصی طور پر جلدی امراض میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اشیائے خود و نوش کی فراہمی اور ترسیل ضروری ہو جاتی ہے۔ یہ امر قابل تعریف ہے کہ قدرتی آفات کی بحالی میں دنیا بھر کے ممالک ایک دوسرے کی مسلسل امداد کرتے ہیں اور بحالی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ بین الاقوامی این جی اوز بھی متحرک ہو جاتی ہیں۔ پاکستان میں قدرتی آفات کے اثرات دیرپا رہتے ہیں اور بحالی کا عمل بھی سست روی کا شکار رہتا ہے۔ سیلاب، زلزلہ، قحط، اندھی اور غیر متوقع حادثات سے یقینا نارمل زندگی متاثر ہوتی ہے۔ قدرتی آفات کی روک تھام تو ممکن نہیں لیکن انکی بحالی کیلئے ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر اقدامات کرنے ہوتے ہیں۔

سید عارف نوناری ……چیئرنگ کراس 

ای پیپر دی نیشن